سنن ابي داود
كِتَاب الدِّيَاتِ -- کتاب: دیتوں کا بیان
12. باب فِي مَنْ وَجَدَ مَعَ أَهْلِهِ رَجُلاً أَيَقْتُلُهُ
باب: جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پائے تو کیا اسے قتل کر دے؟
حدیث نمبر: 4533
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَرَأَيْتَ لَوْ وَجَدْتُ مَعَ امْرَأَتِي رَجُلًا أُمْهِلُهُ حَتَّى آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ؟ قَالَ: نَعَمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: بتائیے اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں تو کیا چار گواہ لانے تک اسے مہلت دوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 12737) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2605  
´شوہر بیوی کے ساتھ اجنبی مرد کو پائے تو کیا کرے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! آدمی اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو پائے تو کیا اسے قتل کر دے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کا اعزاز بخشا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2605]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بدکاری کا ارتکاب کرنے والے مرد اور عورت کو جو شخص عین جرم کی حالت میں دیکھ لے تو اسے بھی یہ حق نہیں کہ انھیں قتل کردے۔

(2)
اس صورت میں اسےچاہیے کہ تین مردوں کی گواہی شریک کرے حتی کہ وہ چاروں انھیں جرم کی حالت میں دیکھ لیں۔

(3)
گواہی مکمل ہونے پرعدالت ایسے مرد یا عورت کوشرعی سزا (سوکوڑوں کی سزا)
دےگی۔

(4)
گواہی کا یہ نصاب مقررکرنےمیں یہ حکمت ہےکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنی ناراضی کی وجہ سےکسی کوقتل کردے اور بعد میں کہ دے میں نے اسے زنا کرتے دیکھا تھا۔

(5)
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کوملوث دیکھتا ہےاس کے لیے طلاق اور لعان کا راستہ موجود ہے لہٰذا قانون ہاتھ لینا اوربیوی کوقتل کردینا جائز نہیں ہے۔

(6)
حضرت سعد بن عبادہ کا کلام ان کی غیرت کا مظہر ہے اس لیےرسول اللہ ﷺ نے ان کےجذبہ غیرت کی تحسین فرمائی لیکن انہیں یہ اختیار نہیں دیا کہ مجرم کوخود ہی قتل کردیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2605   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4533  
´جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پائے تو کیا اسے قتل کر دے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: بتائیے اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں تو کیا چار گواہ لانے تک اسے مہلت دوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4533]
فوائد ومسائل:
1: دوسری احادیث میں ہے، رسول اللہ ؐ نے فرمایا دیکھو سعد کس قدر غیرت مند ہے اور میں اس سے زیادی غیرت مند ہوں اور اللہ سب سے بڑھ کر غیرت والا ہے۔
(صحیح البخاري، النکاح، قبل الحدیث:5220، صحیح مسلم:اللعان، حدیث:1498)
2: اس حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ صاحب ایمان کو اللہ کی حدود پر ٹھہرنے والا ہونا چاہیے نہ ان سے تجاوز کرنے والا۔
اسلام میں انسانی جان کی بہت زیادہ قدراہمیت ہے اور اس قسم کے حادثے میں بھی کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں بلکہ چار گواہوں یا اقرر ہو تو تن رجم ہو گا۔
اگر گواہ ہوں، نہ عورت کا اقراربلکہ صرف خاوند کا دعوی ہو تو اس صورت میں رجم نہیں ہو گا، بلکہ لعان ہو گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4533