سنن ابي داود
كِتَاب الدِّيَاتِ -- کتاب: دیتوں کا بیان
13. باب الْعَامِلِ يُصَابُ عَلَى يَدَيْهِ خَطَأً
باب: زکاۃ وصول کرنے والے کے ہاتھ سے لاعلمی میں کوئی زخمی ہو جائے تو کیا کرنا چاہئے۔
حدیث نمبر: 4534
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ مُصَدِّقًا، فَلَاجَّهُ رَجُلٌ فِي صَدَقَتِهِ فَضَرَبَهُ أَبُو جَهْمٍ فَشَجَّهُ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: الْقَوَدَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَكُمْ كَذَا وَكَذَا، فَلَمْ يَرْضَوْا، فَقَالَ: لَكُمْ كَذَا وَكَذَا، فَلَمْ يَرْضَوْا، فَقَالَ: لَكُمْ كَذَا وَكَذَا، فَرَضُوا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي خَاطِبٌ الْعَشِيَّةَ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ، فَقَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ اللَّيْثِيِّينَ أَتَوْنِي يُرِيدُونَ الْقَوَدَ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ كَذَا وَكَذَا فَرَضُوا، أَرَضِيتُمْ؟ قَالُوا: لَا، فَهَمَّ الْمُهَاجِرُونَ بِهِمْ، فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُفُّوا عَنْهُمْ فَكَفُّوا، ثُمَّ دَعَاهُمْ فَزَادَهُمْ، فَقَالَ: أَرَضِيتُمْ، فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ، قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَرَضِيتُمْ، قَالُوا: نَعَمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، ایک شخص نے اپنی زکاۃ کے سلسلہ میں ان سے جھگڑا کر لیا، ابوجہم نے اسے مارا تو اس کا سر زخمی ہو گیا، تو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! قصاص دلوائیے، اس پر آپ نے ان سے فرمایا: تم اتنا اور اتنا لے لو لیکن وہ لوگ راضی نہیں ہوئے، تو آپ نے فرمایا: اچھا اتنا اور اتنا لے لو وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو آپ نے فرمایا: اچھا اتنا اور اتنا لے لو اس پر وہ رضامند ہو گئے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج شام کو میں لوگوں کے سامنے خطبہ دوں گا اور انہیں تمہاری رضا مندی کی خبر دوں گا لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اور فرمایا: قبیلہ لیث کے یہ لوگ قصاص کے ارادے سے میرے پاس آئے ہیں تو میں نے ان کو اتنا اور اتنا مال پیش کیا اس پر یہ راضی ہو گئے ہیں (پھر آپ نے انہیں مخاطب کر کے پوچھا:) بتاؤ کیا تم لوگ راضی ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، تو مہاجرین ان پر جھپٹے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان سے باز رہنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ رک گئے، پھر آپ نے انہیں بلایا، اور کچھ اضافہ کیا پھر پوچھا: کیا اب تم راضی ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: میں لوگوں کو خطاب کروں گا، اور انہیں تمہاری رضا مندی کے بارے میں بتاؤں گا لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کیا، اور پوچھا: کیا تم راضی ہو؟ وہ بولے: ہاں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/القسامة 20 (4782)، سنن ابن ماجہ/الدیات 13 (2638)، (تحفة الأشراف: 6636)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/232) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2638  
´زخمی کرنے والا بدلے میں فدیہ دے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو مصدق (عامل صدقہ) بنا کر بھیجا، زکاۃ کے سلسلے میں ان کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا، ابوجہم رضی اللہ عنہ نے اسے مارا تو اس کا سر پھٹ گیا، وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور قصاص کا مطالبہ کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تم اتنا اتنا مال لے لو، وہ راضی نہیں ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا اتنا اتنا مال (اور) لے لو، تو وہ راضی ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2638]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثة مسند الإمام أحمد: 43؍111، 112، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، رقم: 2638، وصحیح سنن ابن ماجة للألبانی، رقم: 2150)
۔

(2)
زخم کا بھی قصاص ہوتا ہے۔

(3)
  قصاص کے عوض نقد جرمانہ (دیت)
درست ہے۔

(4)
دیت صرف اس وقت درست ہے جب مدعی راضی ہو جائے۔

(5)
جس کے معاملے میں یہ خطرہ محسوس ہوکہ عوام امیر (حاکم)
پر اعتراض کریں گے تو اس میں امیر کو ایسا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے کہ اعتراضات کا دروازہ بند ہوجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2638   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4534  
´زکاۃ وصول کرنے والے کے ہاتھ سے لاعلمی میں کوئی زخمی ہو جائے تو کیا کرنا چاہئے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، ایک شخص نے اپنی زکاۃ کے سلسلہ میں ان سے جھگڑا کر لیا، ابوجہم نے اسے مارا تو اس کا سر زخمی ہو گیا، تو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! قصاص دلوائیے، اس پر آپ نے ان سے فرمایا: تم اتنا اور اتنا لے لو لیکن وہ لوگ راضی نہیں ہوئے، تو آپ نے فرمایا: اچھا اتنا اور اتنا لے لو وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو آپ نے فرمایا: اچھا اتنا اور اتنا لے لو اس پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4534]
فوائد ومسائل:
 بعض حضرات نے اس حدیث کی صحت تسلیم کی ہے، لیکن صحیح تر بات یہ ہے کہ روایت ضعیف ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4534