سنن ابي داود
كِتَاب الدِّيَاتِ -- کتاب: دیتوں کا بیان
23. باب فِي دِيَةِ الذِّمِّيِّ
باب: ذمی کی دیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4583
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" دِيَةُ الْمُعَاهِدِ نِصْفُ دِيَةِ الْحُرِّ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ مِثْلَهُ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذمی معاہد کی دیت آزاد کی دیت کی آدھی ہے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے اسامہ بن زید لیثی اور عبدالرحمٰن بن حارث نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی کی مثل روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8787)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدیات 17 (1413)، سنن النسائی/القسامة 31 (4810)، سنن ابن ماجہ/الدیات 13 (2644)، مسند احمد (2/183، 217، 224) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی جو کافر دارالاسلام میں معاہدہ کی رو سے رہتا ہے اس کی دیت مسلمان کی دیت کی آدھی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2644  
´کافر کی دیت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: دونوں اہل کتاب کی دیت مسلمان کی دیت کے مقابلہ میں آدھی ہے، اور دونوں اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2644]
اردو حاشہ:
فائدہ:
یہودی اور عیسائی دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2644   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1016  
´اقسام دیت کا بیان`
یہ روایت بھی انہی (عمرو بن شعیب رحمہ اللہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذمیوں کی دیت مسلمانوں کی دیت کا نصف ہے۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ابوداؤد کے الفاظ اس طرح ہیں کہ ذمی کی دیت آزاد کے مقابلہ میں آدھی ہے۔ اور نسائی کی روایت میں ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کی مانند ہے۔ یہاں تک کہ دونوں کی دیت تہائی تک پہنچے۔ اسے ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1016»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الديات، باب في دية الذمي، حديث:4583، والنسائي، القسامة، حديث:4809، وابن ماجه، الديات، حديث:2644، والترمذي، الديات، حديث:1413، وأحمد:2 /180، 215، وابن خزيمة.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذمی کی دیت مسلمان کی دیت سے آدھی ہے۔
ذمی اس کافر کو کہتے ہیں جو کسی معاہدے کی بنا پر یا جزیہ دے کر اسلامی ریاست میں بطور رعایا سکونت پذیر ہو۔
2.عورت کی دیت زخموں میں مرد کی دیت کے برابرہے بشرطیکہ اس زخم کی دیت مرد کی پوری دیت کے ثلث (تہائی) سے اوپر نہ ہو اگر ثلث سے اوپر ہوگی تو مرد کی دیت سے نصف رہ جائے گی۔
اسے ایک مثال سے سمجھیے کہ ایک خاتون کی تین انگلیاں کٹ گئیں‘ ان کی دیت دس اونٹ فی انگلی کے حساب سے تیس اونٹ ہوگی اور یہاں تک وہ دیت میں مرد کے برابر ہوگی لیکن جب اس خاتون کی چار انگلیاں کٹ جائیں اور مرد کی بھی چار کٹ جائیں تو مرد کی دیت چالیس اونٹ ہو گی اور عورت کی دیت بیس اونٹ کیونکہ چالیس‘ سو کے ثلث (تہائی) سے اوپر ہے‘ اس لیے عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف رہ جائے گی۔
جمہور علماء کا یہی مسلک ہے مگر احناف اور شوافع قتل اور زخم ہر دو صورتوں میں عورت کی آدھی دیت ہی کے قائل ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1016   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4583  
´ذمی کی دیت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذمی معاہد کی دیت آزاد کی دیت کی آدھی ہے ۱؎۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے اسامہ بن زید لیثی اور عبدالرحمٰن بن حارث نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی کی مثل روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4583]
فوائد ومسائل:
ایسا غیرمسلم جو مملکت اسلامی کی رعیت میں شامل ہو ذمی کہلاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4583