سنن ابي داود
كِتَاب الدِّيَاتِ -- کتاب: دیتوں کا بیان
25. باب فِيمَنْ تَطَبَّبَ وَلاَ يُعْلَمُ مِنْهُ طِبٌّ فَأَعْنَتَ
باب: جس نے طب جانے بغیر کسی کا علاج کیا اور اس کو نقصان پہنچا دیا تو اس کی سزا کیا ہے؟
حدیث نمبر: 4586
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَنْطَاكِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ سُفْيَانَ، أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ مُسْلِمٍ أَخْبَرَهُمْ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ تَطَبَّبَ وَلَا يُعْلَمُ مِنْهُ طِبٌّ فَهُوَ ضَامِنٌ"، قَالَ نَصْرٌ: قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا لَمْ يَرْوِهِ إِلَّا الْوَلِيدُ، لَا نَدْرِي هُوَ صَحِيحٌ أَمْ لَا؟.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو طب نہ جانتا ہو اور علاج کرے تو وہ (مریض کا) ضامن ہو گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ولید کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا، ہمیں نہیں معلوم یہ صحیح ہے یا نہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/القسامة 34 (4834)، سنن ابن ماجہ/الطب 16 (3466)، (تحفة الأشراف: 8746) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3466  
´طب نہ جانتے ہوئے علاج معالجہ کرنے والے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص علاج کرنے لگے حالانکہ اس سے پہلے اس کے طبیب ہونے کا کسی کو علم نہیں تھا، تو وہ ضامن (ذمہ دار) ہو گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3466]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔
جبکہ دیگر محققین نے اسے دیگرشواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔
کہ مذکورہ روایت مجموعی طرق سے حسن بن جاتی ہے۔
مذید تفصیل کے لئے دیکھئے۔ (سلسلة الاحادیث الصحیحة، رقم: 635)

(2)
طب کا پیشہ ایک اہم پیشہ ہے۔
چونکہ اس کا تعلق لوگوں کی زندگی اور صحت سے ہے۔
اس لئے اسے باقاعدہ سیکھنے کے بعد علاج کرنا شروع کرناچاہیے۔

(3)
اناڑی حکیم کو لوگوں کی صحت سے کھیلنے سے روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

(4)
اناڑی ڈاکٹر یا طبیب کے غلط علاج کے نتیجے میں اگر کسی کو نقصان پہنچ جائے تو اسے اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔
اگر مریض ہلاک ہوجائے تو طبیب قتل خطا کا مجرم قرار دیاجائے گا۔
اور اس سے دیت وصول کرکے مریض کے وارثوں کو دی جائے گی۔

(5)
اسلام کی نظر میں ہر امیرغریب کی جان برابرقیمتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3466   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1014  
´اقسام دیت کا بیان`
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا سے مرفوع روایت بیان کی ہے کہ جو شخص اپنے آپ طبیب بن کر کسی کو دوائی دیتا ہے حالانکہ اسے طبابت میں مہارت نہیں اور اس (کے غلط علاج) سے کوئی آدمی قتل ہو جائے یا کوئی نقصان کسی کو پہنچ جائے تو وہ اس کا ضامن ہے۔ اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ ابوداؤد اور نسائی وغیرہ کے ہاں بھی یہ روایت منقول ہے مگر جن راویوں نے اس روایت کو مرسل بیان کیا ہے وہ ان راویوں سے زیادہ قوی ہیں جنہوں نے اسے موصول بیان کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1014»
تخریج:
«أخرجه الدارقطني: 3 /196، والحاكم:4 /212 وصححه، ووافقه الذهبي «وسنده ضعيف» وأبوداود، الديات، حديث:4586، والنسائي، القسامة، حديث"4834.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت مجموعی طرق سے حسن درجے کی بن جاتی ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘ رقم:۶۳۵) 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص صحیح معنوں میں طبیب نہیں مگر وہ کسی کو دوائی دیتا ہے اور اس سے جانی نقصان ہو جاتا ہے یا اعضائے بدن میں سے کوئی عضو ناکارہ ہو جاتا ہے تو اس پر اس کی دیت واجب ہوگی اور ادائیگی ٔدیت کا بار اس کے عصبہ پر پڑے گا۔
3. علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے (زاد المعاد میں) طبیب حاذق کے لیے بیس باتوں کا خیال و لحاظ رکھنا ضروری قرار دیا ہے‘ پھر ان کو ایک ایک کر کے بیان کیا ہے۔
4. ناتجربہ کار اور اناڑی طبیب سے نقصان کی صورت میں اس پر دیت کے واجب ہونے پر تمام ائمہ کا اجماع ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1014   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4586  
´جس نے طب جانے بغیر کسی کا علاج کیا اور اس کو نقصان پہنچا دیا تو اس کی سزا کیا ہے؟`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو طب نہ جانتا ہو اور علاج کرے تو وہ (مریض کا) ضامن ہو گا۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ولید کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا، ہمیں نہیں معلوم یہ صحیح ہے یا نہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4586]
فوائد ومسائل:
بعض محققین کے نزدیک مذکورہ روایت حسن ہے، ان کے نزدیک عطائی قسم کے غیر معروف طبیب اورمعالج اگر اپنے علاج سے کسی نقصان کردیں تو وہ ضامن اور ذمہ دار ہیں اور لوگوں کو بھی ایسے عطائیوں سے محتاط رہنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4586