سنن ابي داود
كِتَاب الدِّيَاتِ -- کتاب: دیتوں کا بیان
32. باب الْقِصَاصِ مِنَ السِّنِّ
باب: دانت کے قصاص کا بیان۔
حدیث نمبر: 4595
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كَسَرَتِ الرُّبَيِّعُ أُخْتُ أَنَسِ بْنِ النَّضْرِ ثَنِيَّةَ امْرَأَةٍ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى بِكِتَابِ اللَّهِ الْقِصَاصَ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا الْيَوْمَ، قَالَ: يَا أَنَسُ كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ، فَرَضُوا بِأَرْشٍ أَخَذُوهُ، فَعَجِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، قِيلَ لَهُ: كَيْفَ يُقْتَصُّ مِنَ السِّنِّ؟ قَالَ: تُبْرَدُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی بہن ربیع نے ایک عورت کا سامنے کا دانت توڑ دیا، تو وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ نے اللہ کی کتاب کے مطابق قصاص کا فیصلہ کیا، تو انس بن نضر نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! اس کا دانت تو آج نہیں توڑا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انس! کتاب اللہ میں قصاص کا حکم ہے پھر وہ لوگ دیت پر راضی ہو گئے جسے انہوں نے لے لیا، اس پر اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعجب ہوا اور آپ نے فرمایا: اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو وہ ان کی قسم پوری کر دیتا ہے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا ان سے پوچھا گیا تھا کہ دانت کا قصاص کیسے لیا جائے؟ تو انہوں نے کہا: وہ ریتی سے رگڑا جائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 777)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلح 8 (2703)، تفسیر سورة البقرة 23 (4499)، المائدة 6 (4611)، الدیات 19 (6894)، صحیح مسلم/القسامة 5 (1675)، سنن النسائی/القسامة 12 (4759)، سنن ابن ماجہ/الدیات 16 (2649)، مسند احمد (3/128، 167، 284) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے غصے میں اللہ کے بھروسے پر قسم کھا لی تھی کہ میری بہن کا دانت نہیں توڑا جائے گا، چنانچہ اللہ نے ان کے لئے ایسا ہی سامان قانونی طور پر کر دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2649  
´دانت میں قصاص کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہا نے ایک لڑکی کے سامنے کا دانت توڑ ڈالا، تو ربیع کے لوگوں نے معافی مانگی، لیکن لڑکی کی جانب کے لوگ معافی پر راضی نہیں ہوئے، پھر انہوں نے دیت کی پیش کش کی، تو انہوں نے دیت لینے سے بھی انکار کر دیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دیا، تو انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ایسا نہیں ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انس! اللہ کی کتاب قصاص کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2649]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دانٹ توڑنے پر بھی فصاص کا قانون نافذ ہوتا ہے، یعنی مجرم کا دانٹ توڑ دیا جائے یا دیت لے لی جائے یا معاف کردیا جائے۔

(2)
ایک دانت توڑنے کی دیت پانچ اونٹ ہے۔

(3)
حضرت انس بن نضر ؓ نے فرمایا کہ ربیع رضی اللہ عنہا کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔
یہ رسول اللہﷺ کے فیصلے پر ناراضی کا اظہار نہیں تھا بلکہ اللہ تعالی پر توکل اور اعتماد کا اظہار تھا کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی ان لوگوں کے دل پھیر دے گا اور وہ دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے یا معاف کردیں گے۔

(4)
کسی معزز شخصیت کے لیے قانون تبدیل نہیں ہوتا۔

(5)
اس واقعے میں حضرت انس بن نضر ؓ اوران کی ہمشیرہ کی عظمت اور رفعت مقام کا اظہار ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2649   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1003  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دئیے۔ ربیع کے رشتہ داروں نے اس سے معافی طلب کی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے دیت دینے کی پیش کش کی۔ اسے بھی انہوں نے رد کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آئے اور قصاص کا مطالبہ کیا اور قصاص کے سوا کسی بھی چیز کو لینے سے انکار کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرما دیا۔ یہ سن کر سیدنا انس بن نضر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا؟ نہیں، اس ذات اقدس کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انس! اللہ کا نوشتہ تو قصاص ہی ہے۔ اتنے میں وہ لوگ اس پر رضامند ہو گئے اور پھر معافی دے دی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1003»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الصلح، باب الصلح في الدية، حديث:2703، ومسلم، القسامة، باب إثبات القصاص في الأسنان وما في معناها، حديث:1675.»
تشریح:
اس حدیث سے حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی فضیلت معلوم ہوئی کہ انھوں نے جو قسم کھائی‘ اللہ نے اسے پورا فرما دیا۔
انھوں نے اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسے کی بنا پر قسم کھائی تھی جسے اللہ نے پورا کر دیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تردید اور اعراض مقصود نہ تھا۔
ایسا ہوتا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ ارشاد نبوی کے نافرمان شمار ہوتے جو کہ ایک صحابی کی شان کے ہر گز لائق نہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی تعریف فرمانا ان کی فضیلت و منقبت کا کھلا ثبوت ہے۔
راویٔ حدیث:
«‏‏‏‏حضرت رُبَیِّع بنت نضر رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ را پر ضمہ‘ با پر فتحہ اور یا کے نیچے کسرہ اور تشدید ہے۔
یہ نضر بن ضمضم بن زید بن حرام کی بیٹی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی پھوپھی اور حارثہ بن سراقہ‘ جو غزوۂ بدر میں جام شہادت نوش فرما کر خلد بریں کے مکین بن گئے ‘ کی والدہ تھیں۔
«حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ یہ حضرت رُبَیِّع کے بھائی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا تھے۔
یہ غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔
اس کا انھیں بڑا افسوس تھا۔
جنگ احد کے روز مسلمانوں کے رویے پر اللہ تعالیٰ سے معذرت کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے مشرکین کی صف کی جانب بڑھے کہ میں تو اُحد کے ورے جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔
اس کے بعد خوب لڑے اور شہید ہو گئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1003   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3854  
´براء بن مالک رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتنے پراگندہ بال غبار آلود اور پرانے کپڑے والے ہیں کہ جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ایسے ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو سچی کر دے ۱؎، انہیں میں سے براء بن مالک ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3854]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ ان کے اللہ تعالیٰ کے نہایت محبوب ہونے کی دلیل ہے،
اور یہ محبوبیت یونہی حاصل ہو جاتی،
بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی اوراحکامات کی صدق دل اور فدائیت کے ساتھ بجا آوری کرتے ہیں،
اس لیے ان کو یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے،
اور ان میں براء بن مالک بھی تھے،
رضی اللہ عنہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3854   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4595  
´دانت کے قصاص کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی بہن ربیع نے ایک عورت کا سامنے کا دانت توڑ دیا، تو وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ نے اللہ کی کتاب کے مطابق قصاص کا فیصلہ کیا، تو انس بن نضر نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! اس کا دانت تو آج نہیں توڑا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انس! کتاب اللہ میں قصاص کا حکم ہے پھر وہ لوگ دیت پر راضی ہو گئے جسے انہوں نے لے لیا، اس پر اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعجب ہوا اور آپ نے فرمایا: اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4595]
فوائد ومسائل:
1: حضرت انس نضر رضی اللہ عنہ کا انکار رسول ؐ پر رد یا شریعت کا انکار نہ تھا۔
بلکہ یہ اس طبعی عار اور اذیت کا اظہار تھا جو دانت توڑے جانے کی صورت میں ایک خاتون اور اس کے قبیلے کو لاحق ہونے والی تھی اور ان کا مقصود یہ تھا کہ اس کے علاوہ کوئی اوجل نکالا جائے۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے ایک انسان روزہ رکھنے کا شائق ہے، مگر اس کے نتیجے میں بھوک پیاس سے اذیت محسوس کرتا ہے تو اس طبعی اذیت کا اظہار کوئی معیوب نہیں۔

2: حضرت انس بن نضر اللہ کے محبوب بندے تھے کہ اللہ نے ان کی قسم پوری کردی۔

3: امام حنبل ؒ کا فتوی کہ دانت رگڑ دیا جائے، اسی وقت صحیح ہو گا جب دانت اوپر ٹوٹا ہو۔
(بذل المجهود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4595