سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
2. باب النَّهْىِ عَنِ الْجِدَالِ، وَاتِّبَاعِ، مُتَشَابِهِ الْقُرْآنِ
باب: قرآن میں جھگڑنا اور متشابہ آیات کے چکر میں پڑنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4598
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّسْتُرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ: هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ إِلَى أُولُو الأَلْبَابِ سورة آل عمران آية 7، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ سَمَّى اللَّهُ فَاحْذَرُوهُمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات» سے لے کر «أولو الألباب» ۱؎ تک تلاوت کی اور فرمایا: جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کے پیچھے پڑتے ہوں تو جان لو کہ یہی لوگ ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے تو ان سے بچو ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/تفسیر آل عمران 1 (4547)، صحیح مسلم/العلم 1 (2665)، سنن الترمذی/تفسیر آل عمران 4 (2993)، (تحفة الأشراف: 17460)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة 7 (47)، مسند احمد (6/48)، سنن الدارمی/المقدمة 19 (147) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: وضاحت ۱؎: پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے: اللہ ہی ہے جس نے تجھ پر وہ کتاب اتاری جس میں واضح و مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں، اور بعض متشابہ آیتیں ہیں، پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ محکم کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگ جاتے ہیں فتنہ پروری کی طلب میں اور اس کی حقیقی مراد معلوم کرنے کے لئے، حالانکہ اس کی حقیقی مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، پختہ علم والے تو یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لاچکے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل والے ہی حاصل کرتے ہیں (سورۃ آل عمران:۷)
۲؎: محکم آیات کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگنا تمام بدعتیوں کی عادت ہے، وہ قدیم ہوں یا جدید ان سے دور رہنے کا حکم ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 151  
´گمراہ اور کج فکروں کی ایک علامت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن عَائِشَة قَالَتْ: تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَات محكمات) ‏‏‏‏وَقَرَأَ إِلَى: (وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ) ‏‏‏‏قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِذَا رَأَيْتَ وَعِنْدَ مُسْلِمٍ: رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ سَمَّاهُمُ الله فاحذروهم " ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی «هو الذى أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات» سے «وما يذكر إلا أولو الألباب» یعنی اللہ وہ ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی ہے اس کتاب میں سے بعض آیتیں محکم ہیں آخر تک۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ان آیتوں کی تلاوت کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ جب تو دیکھے اور مسلم کی روایت میں ہے کہ جب تم دیکھو متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑنے والوں کو تو تم یہ سمجھ لو کہ ان کا نام اللہ تعالیٰ نے کجرو اور گمراہ رکھا ہے ان سے تم بچتے رہو۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/: 151]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 4547]،
[صحيح مسلم 6775]

فقہ الحدیث:
➊ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ امت میں بدعتی (مثلاً خوارج وغیرہ) لوگ پیدا ہوتے رہیں گے، لیکن ان سے بچنا ضروری ہے۔
➋ محکم اس آیت کو کہتے ہیں جو ظاہر اور واضع ہو، اس میں کسی تاویل کی ضرورت نہ ہو، مثلًا حلال و حرام، وعد و وعید، عذاب و ثواب اور امر و نہی وغیرہ۔
متشابہ اس آیت کو کہتے ہیں جس میں مختلف معانی کا احتمال ہو، مثلاً حروف مقطعاًت وغیرہ۔ دیکھئے: تفسیر ابن جریر الطبری [118، 113/3] اور فتح الباری [210/8، 211 ح4547]
➌ بعض اہل بدعت یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا، آسمان دنیا پر نازل ہونا اور آیات صفات وغیرہ متشابہات میں سے ہیں، اہل بدعت کا یہ دعویٰ مردود ہے اور سلف صالحین سے بھی ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے۔
➍ کتاب و سنت کا وہی مفہوم معتبر ہے جو راسخ فی العلم علماء یعنی ثقہ و صدوق سلف صالحین سے ثابت ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 151   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث47  
´بدعات اور جدال (بے جا بحث و تکرار) سے اجتناب و پرہیز۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی: «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب وأخر متشابهات» اللہ تعالیٰ کے یہ فرمان «وما يذكر إلا أولو الألباب» تک: (سورة آل عمران: 7)، یعنی: وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب اتاری، جس میں اس کی بعض آیات معلوم و متعین معنی والی محکم ہیں جو اصل کتاب ہیں، اور بعض آیات متشابہ ہیں، پس جن کے دلوں میں کجی اور ٹیڑھ ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ پھیلائیں اور ان کے معنی مراد کی جستجو کریں، حالانک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 47]
اردو حاشہ:
(1)
قرآن مجید کی بعض آیات احکام پر مشتمل ہیں جو واضح ہیں، یا صحیح احادیث سے ان کی وضاحت ہو جاتی ہے اور ان پر عمل کرنے میں کوئی مشکل نہیں، اس طرح کی سب آیات محکم ہیں۔
بعض آیات کا تعلق عقائد سے ہے، مثلا توحید، رسالت، قیامت وغیرہ۔
قرآن مجید اور احادیث میں ان کی تفصیل موجود ہے اور ان کے دلائل بھی مذکور ہیں، یہ بھی محکم ہیں۔
اس کے برعکس بعض آیات ایسی بھی ہیں جن کا واضح مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا، مثلا حروف مقطعات۔
ان پر اس حد تک ایمان لانا کافی ہے کہ یہ بھی قرآن کا جزء ہیں اور اللہ کا کلام ہیں جن کی تلاوت پر اسی طرح ثواب ملتا ہے جس طرح دوسری آیات کی تلاوت باعث ثواب ہے۔
اس سے زیادہ جستجو کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح وہ معاملات جن کا تعلق عالم غیب سے ہے ان پر بھی اسی انداز سے ایمان لانا کافی ہے کہ یہ اشیاء یقینا موجود ہیں، یا یہ حالات یقینا پیش آنے والے ہیں اور ان کی جو تفصیلات قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، وہ ہمارے لیے کافی ہیں، اس سے زیادہ تحقیق و تفتیش کی ضرورت نہیں، مثلا فرشتے اللہ کی ایک اطاعت گزار مخلوق ہیں جو اپنے اپنے متعین دائرہ کار میں مصروف عمل ہیں۔
یا قیامت کے دن بندوں کے اعمال کا وزن ہو گا۔
اس پر ایمان لانا چاہیے۔
یہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ اعمال تو غیر مادی اشیاء ہیں اور وزن مادی اشیاء کا ہوتا ہے۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے جس طرح کے ترازو سے چاہے گا ان کو وزن کر لے گا۔
اسی طرح عذاب قبر کا تعلق بھی عالم غیب سے ہے۔
اس لیے یہ اعتراض بے جا ہے کہ ہمیں کافروں اور بدکاروں کی قبروں میں عذاب کے آثار نظر نہیں آتے اور نیک لوگوں کی قبروں میں نعمت کے آثار نظر نہیں آتے۔
ان مسائل میں جتنی زیادہ بحث و تمحیص کی جائے، لغزش کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان پر مجمل ایمان کافی ہے۔

(2)
متشابہات میں بلاضرورت بحث سے پرہیز ہی علمائے حق کا طریقہ ہے۔

(3)
اس قسم کے معاملات کو زیر بحث لانے سے فتنے کے دروازے کھلتے ہیں، لہذا جو لوگ اس قسم کے مباحث چھیڑیں ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تاکہ وہ عوام کے ایمان کے لیے خطرہ نہ بنیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 47   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2994  
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات» کی تفسیر پوچھی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ان لوگوں کو آیات متشابہات کے پیچھے پڑے ہوئے دیکھو تو سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے اور ایسے لوگوں سے بچو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2994]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں،
فتنے کی طلب اور ان کی غلط مراد کی جستجو کی خاطر،
حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا (آل عمرآن: 7)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2994   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4598  
´قرآن میں جھگڑنا اور متشابہ آیات کے چکر میں پڑنا منع ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات» سے لے کر «أولو الألباب» ۱؎ تک تلاوت کی اور فرمایا: جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کے پیچھے پڑتے ہوں تو جان لو کہ یہی لوگ ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے تو ان سے بچو ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4598]
فوائد ومسائل:

قرآنی آیات کے محکم اور متشابہ ہونے کے کئی معانی ہیں۔
مثلاًوہ آیات جو دوسری ایات کے لیے ناسخ ہیں۔
یا جن میں حلال وحرام کا بیان آیا ہے۔
یا وہ آیات جن کے معانی واضح اور بندے ان سے آگاہ ہیں۔
یا جن کی کوئی تاویل نہیں وہ محکم کہلاتی ہیں اور متشابہ سے مراد وہ آیات ہیں جو منسوخ ہوچکی ہیں۔
مگر تلاوت بھی ہورہی ہے۔
یا حق وصدق میں ایک دوسری کے مشابہ ہیں انہیں متشابہ کہا گیا ہے۔
یا ایسی آیات جن کے معانی ومفاہیم سے صرف اللہ عزوجل ہی آگاہ ہے۔
یا جن کے مفاہیم کئی پہلو رکھتے ہیں وہ متشابہات کہلاتی ہیں۔


جدال (لڑائی کرنا) بظاہر کوئی قابل تعریف نہیں سمجھا جاتا، مگر اظہار حق اور ابطال باطل کے لیے ازحد ضروری ہے اور قابل تعریف ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس کے لیے علم وحکمت کو شرط قرار دیا ہے۔
ارشاد الہی ہے: (وجادِلهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ) (النحل:١٢٥) محض ریاو سمعہ (شہرت) اور لوگوں کی توجہات حاصل کرنے کی کوشش میں یا باطل کی تائید میں جدال کرنا حرام ہے۔


اہل اہواء (اہل بدعت) اور متشابہات کے درپے ہونے والوں سے دور رہنا چاہیے تاکہ انہیں تقویت وشہرت نہ ملے اور کہیں کسی فتنے میں مبتلا نہ کردیں، البتہ راسخ علماء کا فریضہ ہے کہ حق کا اظہار وبیان کریں اور عوام کو باطل سے متنبہ اور آگاہ کرتے رہیں۔


اور ایسے لوگ مختلف ناموں سے ہر دور میں اور ہر جگہ موجود رہے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4598