سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
7. باب لُزُومِ السُّنَّةِ
باب: سنت پر عمل کرنے کی دعوت دینے والوں کے اجر و ثواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 4610
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ أَمْرٍ لَمْ يُحَرَّمْ فَحُرِّمَ عَلَى النَّاسِ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے سوال کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر حرام کر دی گئی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الاعتصام 3 (7289)، صحیح مسلم/الفضائل 37 (2358)، (تحفة الأشراف: 3892)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/176، 179) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سوال دو طرح کا ہوتا ہے: ایک تو وہ جس کی ضرورت ہے اور معلوم نہیں تو آدمی کے جاننے کے لئے پوچھنا درست ہے، دوسرا وہ جس کی نہ حاجت ہے نہ ضرورت، آدمی بلا ضرورت یونہی خیالی و فرضی سوال کرے اور ناحق پریشان کرے، اور اس کے سوال کے سبب وہ حرام کر دی جائے، اس حدیث میں اسی قسم کے سوال کو سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے، آج کل بعض لوگ علماء سے یونہی بلا ضرورت یا بطور امتحان سوال کیا کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 153  
´سب سے بڑا جرم کون؟`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «أَن أعظم الْمُسلمين فِي لامسلمين جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ على النَّاس فَحرم من أجل مَسْأَلته» . . .»
. . . سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سب سے زیادہ مجرم اور گنہگار وہ آدمی ہے جس نے کوئی ایسی چیز دریافت کی جو لوگوں پر پہلے سے حرام نہیں تھی لیکن اس کے پوچھنے اور دریافت کرنے سے وہ چیز حرام ہو گئی۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 153]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 7289]،
[صحيح مسلم 6116]

فقہ الحدیث:
➊ جس چیز کی ممانعت اور حرام ہونے کا ذکر کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت نہیں ہے تو ایسے دنیاوی امور میں اصل یہ ہے کہ یہ چیزیں مباح ہیں الا یہ کہ شریعت میں اس کی ممانت وارد ہو۔ دیکھئے: [فتح الباري 269/13]
➋ فضول سوالات کرنے سے اجتناب کرنا چاہئیے۔
➌ اس حدیث کا تعلق عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی دور نزول وحی کے ساتھ ہے۔
➍ ایسا کام کرنا جس سے دوسروں کو تکلیف ہو حرام ہے۔
➎ مسئلہ پوچھتے وقت مفاد عامہ کا خیال ضرور رکھنا چاہئیے۔
➏ سیاق و سباق اور حالات کے لحاظ سے بعض اوقات معمولی لغزش بھی بہت سنگین جرم بن جاتا ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 153   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4610  
´سنت پر عمل کرنے کی دعوت دینے والوں کے اجر و ثواب کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے سوال کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر حرام کر دی گئی ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4610]
فوائد ومسائل:
دین کے احکام جس طرح ایک عام آدمی کی سمجھ میں آسکتے ہیں، اسی طرح ان پر عمل کرنا چاہیے۔
اطاعت کے لیے یہ کافی ہے۔
خود ان احکام کے اندر مختلف پہلوؤں کو نکال کر سوال کرنے میں کئی قباحتیں ہیں۔
بغیر ضرورت بال کی کھال اتانے سے اپنے اور دوسروں کے لیے سخت دشواریاں پیدا ہوتی ہیں، ان سے احترازکرتے ہوئے صدق نیت سے آیات واحادیث کے سہل اور عام مفہوم پر عمل کرنا کافی ہے۔
قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ یہودیوں کو گائے ذبح کرنے کا حکم ملا۔
انہوں نے کیسی کس رنگ کی کس طرح کی گائے کے حوالے سے سوال کرنے شروع کردیے۔
ہر سوال سے گائے کی تخصیص ہوتی گئی اور اس طرح کی گائے ذبح کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔
اللہ تعالی نے اس طریقے کار کو یہود کے غلط طریق پر محمول فرمایا۔
حکم ملتے ہی اگر وہ حسن نیت سے کوئی ایک گائے ذبح کر دیتے تو اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے۔
بہت زیادہ سوالات کرنا کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا گیا بالخصوص ایسے سوالات جن کا عملی زندگی سے واسطہ نہ ہو۔
یا محض فرضی مسائل ہوں۔
اب اگرچہ حلت وحرمت کا دورتو نہیں، مگر علماء سے بھی لازمی اور ضروری سوالات ہی کرنے چاہییں جن کا تعلق حقیقت واقعہ سے ہو۔
فرضی صورتیں سوچ سوچ کر ان کے جواب مانگنا یا تلاش کرنا غیر صحت مند رویہ ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4610