سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
8. باب فِي التَّفْضِيلِ
باب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب افضل کون ہے پھر اس کے بعد کون ہے؟
حدیث نمبر: 4630
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي الْفِرْيَابِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ، يَقُولُ:" مَنْ زَعَمَ أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ أَحَقَّ بِالْوِلَايَةِ مِنْهُمَا فَقَدْ خَطَّأَ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَالْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارَ، وَمَا أُرَاهُ يَرْتَفِعُ لَهُ مَعَ هَذَا عَمَلٌ إِلَى السَّمَاءِ".
سفیان کہتے تھے: جو یہ کہے کہ علی رضی اللہ عنہ ان دونوں (ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ) سے خلافت کے زیادہ حقدار تھے تو اس نے ابوبکر، عمر، مہاجرین اور انصار کو خطاکار ٹھہرایا، اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کے اس عقیدے کے ہوتے ہوئے اس کا کوئی عمل آسمان کو اٹھ کر جائے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18766) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4630  
´صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب افضل کون ہے پھر اس کے بعد کون ہے؟`
سفیان کہتے تھے: جو یہ کہے کہ علی رضی اللہ عنہ ان دونوں (ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ) سے خلافت کے زیادہ حقدار تھے تو اس نے ابوبکر، عمر، مہاجرین اور انصار کو خطاکار ٹھہرایا، اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کے اس عقیدے کے ہوتے ہوئے اس کا کوئی عمل آسمان کو اٹھ کر جائے گا۔ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4630]
فوائد ومسائل:
مہاجرین اور انصار اور کل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام طبقات انسانی میں وہ محترم طبقہ ہیں جن کو اللہ عزوجل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور اپنے دین کی نصرت کے لیے منتخب فرمایا۔
تو ان سب کی اجتماعی رائے کو باطل کس طرح قرار دیا جا سکتا۔
بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی معصوم نہیں، مگر کیا وہ اس قدر ہی گزرگئے تھے کہ اپنے اجتماعی معاملات کو راہ حق وصواب پر چلانے سے قاصر تھے۔
حاشا وكلا! وہ یقیناً علم و فضل کی طرح فہم وفراست میں بھی سب سے افضل واعلی تھے اور انہی فضائل کی بناء پر اللہ عزوجل نے ان کی قرآن مجید میں مدح فرمائی ہے۔
انہوں نے اپنی شوری سے جن کو اپنا قائد بنایا وہ صحیح معنی میں افضل ترین لوگ تھے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4630