سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
9. باب فِي الْخُلَفَاءِ
باب: خلفاء کا بیان۔
حدیث نمبر: 4654
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مُوسَى: فَلَعَلَّ اللَّهَ، وَقَالَ ابْنُ سِنَانٍ:" اطَّلَعَ اللَّهُ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (موسیٰ کی روایت میں «فلعل الله» کا لفظ ہے، اور ابن سنان کی روایت میں «اطلع الله» ہے) اللہ تعالیٰ بدر والوں کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں نظر رحمت و مغفرت سے دیکھا تو فرمایا: جو عمل چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: 2650، (تحفة الأشراف: 12809)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/295) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان اصحاب بدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کے بعد کوئی عمل اللہ کی منشاء کے خلاف بھی ہو جائے تو وہ ان سے باز پرس نہ فرمائے گا کیونکہ ان کو معاف کر چکا ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کو بداعمالیوں کی اجازت دی جا رہی ہے یا یہ کہ ان سے دنیا میں بھی باز پرس نہ ہو گی بلکہ اگر خدانخواستہ وہ دنیا میں کوئی عمل قابل حد کر بیٹھے تو حد جاری کی جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4654  
´خلفاء کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (موسیٰ کی روایت میں «فلعل الله» کا لفظ ہے، اور ابن سنان کی روایت میں «اطلع الله» ہے) اللہ تعالیٰ بدر والوں کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں نظر رحمت و مغفرت سے دیکھا تو فرمایا: جو عمل چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4654]
فوائد ومسائل:

جب دین کی سر بلندی کے لیے یہ لوگ خود کو قربان کرنے پر تل گئے تو ان کو اخلاص اور ایمان کا اعلی ترین معیار حاصل ہو گیا۔
اس لیے ان کو ایسی عظیم خوشخبری دی گئی۔
ان کا یہ عظیم عمل ان کے باقی تمام اعمال سے چاہے وہ مثبت ہوں یا منفی بہت بڑا تھا۔


حدیث میں مذکورہ فرمان کا یہ مفہوم ہرگز نہیں تھا کہ وہ شرعی اور اخلاقی حدود وقیود سے مبرا ہوگئے تھے۔
نہیں بلکہ اس بیان میں ان کے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے یہ خبر صادق ہے کہ یہ لوگ تا حیات دین وشریعت کے تقاضے پورے کرتے رہیں گے اور ان سے کوئی ایسا عمل سرزد نہیں ہوگا جو ان کے لیے اللہ عزوجل کی ناراضی یا جہنم میں جانے کا باعث ہو اس میں ان کے معصوم عن الخطا ہونے کا مفہوم نہیں ہے، بلکہ بشارت ہے کہ ان کی تمام تقصیرات معاف کردی جائیں گی۔
رضی اللہ عنہم۔
تو حیف ہے ان لوگوں پر جو ان کی اجتہادی خطاؤں کو نمایاں کرتے اور ان پر طعن و تشنیع کرنا اور تاریخ کی خدمت سمجھتے ہیں۔
فإنا لله و إنا إليه راجعون۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4654