سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
12. باب فِي اسْتِخْلاَفِ أَبِي بَكْرٍ رضى الله عنه
باب: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4661
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَمْعَةَ أَخْبَرَهُ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: لَمَّا سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَ عُمَرَ، قَالَ ابْنُ زَمْعَةَ:" خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَطْلَعَ رَأْسَهُ مِنْ حُجْرَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: لَا لَا لَا لِيُصَلِّ لِلنَّاسِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ، يَقُولُ ذَلِكَ مُغْضَبًا".
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے انہیں یہی بات بتائی اور کہا: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو آپ نکلے یہاں تک کہ حجرے سے اپنا سر نکالا، پھر فرمایا: نہیں، نہیں، نہیں، ابن ابی قحافہ (یعنی ابوبکر) کو چاہیئے کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ غصے میں فرما رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف: 5295) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4661  
´ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا بیان۔`
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے انہیں یہی بات بتائی اور کہا: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو آپ نکلے یہاں تک کہ حجرے سے اپنا سر نکالا، پھر فرمایا: نہیں، نہیں، نہیں، ابن ابی قحافہ (یعنی ابوبکر) کو چاہیئے کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ غصے میں فرما رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4661]
فوائد ومسائل:
1: رسول ؐ کی آخری بیماری کے ایام میں پہلی نماز حضرت عمر رضی اللہ نے پڑھائی، بعدازاں سیدنا ابو بکر رضی اللہ پڑھاتے رہے اور نبی ؐ کی حیات مبارکہ میں ان کی پڑھائی ہوئی نمازوں کی تعداد سترہ ہے۔

2: رسول ؐ کا حضرت ابو بکر رضی اللہ کے لئے اصرارخصوصا یہ لفظ کہ (اس سے فرماتا ہے اور مسلمان انکار کرتے ہیں ابو بکر کے علاوہ کوئی اور نمازپڑھائے) ان کی خلیفہ ہونے کا واضح اشارہ بلکہ اس بات کی شہادت تھی کہ وہ مسلمانوں کا فطری انتخاب ہیں۔

3: اس واقعہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ کی کوئی تنقیص نہیں ہوئی، بلکہ یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ کا وہ شرف تھا، جسے حضرت عمر رضی اللہ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ اس سے پہلے تسلیم کرتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4661