سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
14. باب فِي التَّخْيِيرِ بَيْنَ الأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ
باب: انبیاء و رسل علیہم السلام کو ایک دوسرے پر فضیلت دینا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 4675
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ،قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِابْنِ مَرْيَمَ، الْأَنْبِيَاءُ أَوْلَادُ عَلَّاتٍ، وَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں ابن مریم سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ہوں، انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الفضائل 40 (2365)، (تحفة الأشراف: 15324)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 48 (3442)، مسند احمد (2/482، 541) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں، علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں مختلف ہوں اور باپ ایک ہو، انبیاء کی شریعتیں مختلف اور دین ایک تھا،یا یہ مراد ہے کہ زمانے مختلف ہیں اور دین ایک ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4675  
´انبیاء و رسل علیہم السلام کو ایک دوسرے پر فضیلت دینا کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں ابن مریم سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ہوں، انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4675]
فوائد ومسائل:
انبیا کرام کا علاقی بھائی (باپ کی طرف سے بھائی) ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان کی دعوت کے اصول ایک ہیں، یعنی توحید، نبوت اور بعثت قیامت، البتہ دیگر مسائل شرعیہ میں اختلاف رہا ہے۔
آپ نے خود انبیاء کو أخي (یوسف) کہہ کر یاد فرمایا، انبیا کا تذکرہ بہت محبت سے اور خوبصورت انداز سے فرمایا۔
پھر امت کے لئے کیسے روا ہو سکتا ہے کہ وہ تفصیل دینے کا اندازمیں ان کا تذکرہ کرے یا کسی کو افضل اور کسی کو مفضول قرار دے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4675