سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
15. باب فِي رَدِّ الإِرْجَاءِ
باب: ارجاء کی تردید کا بیان۔
حدیث نمبر: 4676
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ، أَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْعَظْمِ عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل لا إله إلا الله کہنا، اور سب سے کم تر راستے سے ہڈی ہٹانا ہے ۲؎، اور حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الإیمان 3 (9)، صحیح مسلم/الإیمان 12 (35)، سنن الترمذی/الإیمان 6 (2614)، سنن النسائی/الإیمان 16 (5007، 5008، 5009)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (57)، (تحفة الأشراف: 12816)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/414، 442، 445) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «ارجاء» کے معنی تاخیر کے ہیں اسی سے فرقہ مرجئہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت نقصان دہ نہیں، اور کفر کے ساتھ کوئی نیکی نفع بخش نہیں، یہ قدیم گمراہ فرقوں میں سے ایک ہے، اس کی تردید میں محدثین کرام نے مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس کتاب میں بھی ان کا رد و ابطال مقصود ہے، ان کے نزدیک اعمال ایمان کا جزء نہیں، بلکہ ایمان محض تصدیق اور اقرار کا نام ہے، جب کہ اہل سنت و اہل حدیث کے یہاں ایمان کے ارکان تین ہیں، دل سے تصدیق، زبان سے اقرار، اور اعضاء و جوارح سے عملی ثبوت فراہم کرنا۔
۲؎: بعض نسخوں میں «عظم» کے بجائے «اذی» کا لفظ ہے گویا کوئی بھی تکلیف دہ چیز۔
۳؎: حدیث سے ظاہر ہے کہ اعمال صالحہ سے مومن کو فائدہ اور اعمال بد سے نقصان اور ضرر ہوتا ہے، جب کہ مرجئہ کہتے ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 9  
´ایمان کوئی جامد چیز نہیں بلکہ اس کی مختلف شاخیں ہیں`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 9]

لغوی توضیح:
«بِضْعٌ» تین سے نو تک کا عدد۔
«شُعْبَة» شاخ، حصہ

فہم الحدیث:
معلوم ہوا کہ ایمان کوئی جامد چیز نہیں بلکہ اس کی مختلف شاخیں ہیں اور ان شاخوں کی کمی بیشی کے اعتبار سے ایمان میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ ایک روایت میں کلمہ «لا اله الا الله» کو ایمان کی اعلی ترین شاخ اور راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو ایمان کی ادنیٰ ترین شاخ قرار دیا گیا ہے۔ [مسلم: كتاب الايمان: باب بيان عدد شعب الايمان 35]
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان میں قلبی اعمال کے ساتھ ساتھ بدنی اعمال بھی شامل ہیں۔ حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے اور خیر و برکت کا باعث ہے، یہی وجہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں نے پہلی نبوت کے کلام میں سے جو کچھ پایا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ جب تو حیاء نہ کرے تو جو چاہے کر۔ [بخارى: كتاب أحاديث الأنبباء: باب حديث الغار: 3484، ابو داود: 4797، ابن ماجه: 4183]
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک روایت میں ہے کہ آپ مخصوص حجرے میں موجود کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے۔ [أخرجه البخاري: 3562، أخرجه مسلم: 232]
واضح رہے کہ جو حیاء قابل تعریف ہے وہ ایسی حیاء ہے جو معاصی سے روکے، لیکن جو حیاء نیکیوں اور واجبات پر عمل سے ہی روک دے مثلاً اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ سے یا اہل علم سے شرعی مسائل و احکام دریافت کرنے سے شرم محسوس ہو تو یہ حیاء قابل مذمت ہے، قابل تعریف نہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ بہترین عورتیں انصار کی عورتیں ہیں کیونکہ انہیں دین کے مسائل سیکھنے سے حیا نہیں روکتی۔ [حسن: صحيح ابن ماجه: كتاب الطهارة وسننها 642]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 21   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 9  
´اصل نیکیاں تو ایمان راسخ، عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 9]

تشریح:
حضرت ا میر المحدثین علیہ الرحمۃ سابق میں بنیادی چیزیں بیان فرما چکے اب فروع کی تفصیل پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے باب میں «امور الايمان» کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مرجیہ کی تردید کرنا بھی مقصود ہے۔ کیونکہ پیش کردہ قرآنی آیات کریمہ میں سے پہلی آیت میں بعض امور ایمان گنائے گئے ہیں اور دوسری آیتوں مین ایمان والوں کی چند صفات کا ذکر ہے۔ پہلی آیت سورۃ بقرہ کی ہے جس میں دراصل اہل کتاب کی تردید مقصود ہے۔ جنہوں نے تحویل قبلہ کے وقت مختلف قسم کی آواز یں اٹھائی تھیں۔ نصاریٰ کا قبلہ مشرق تھا اور یہود کا مغرب۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا، پھر مسجد الحرام کو آپ کا قبلہ قرار دیا گیا اور آپ نے ادھر منہ پھیر لیا۔ اس پر مخالفین نے اعتراضات شروع کئے۔ جن کے جواب میں اللہ پاک نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی اور بتلایا کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرکے عبادت کرنا ہی بالذات کوئی نیکی نہیں ہے۔ اصل نیکیاں تو ایمان راسخ، عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ معاشرتی پاک زندگی اور اخلاق فاضلہ ہیں۔

حافظ ابن حجر نے عبدالرزاق سے بروایت مجاہد حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ انہو ں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تھا۔ آپ نے جواب میں آیت شریفہ «ليس البر ان تولو ا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ولكن البر من آمن بالله واليوم الآخره والملائكةوالكتٰب والنبيين واٰتي المال على حبه ذوي القربي ٰ واليتمي والمساكين وابن السبيل والسائلين وفي الرقاب واقام الصلٰوة واتٰي الزكٰوة والموفون بعهدهم اذا عاهدوا والصٰبرين فى الباساءوالضراءو حين الباس اولٰئك الذين صدقوا واولٰئك هم المتقون» [البقرہ: 177] ترجمہ اوپر باب میں لکھا جا چکا ہے۔

آیات میں عقائد صحیحہ وایمان راسخ کے بعد ایثار، مالی قربانی، صلہ رحمی،حسن معاشرت، رفاہ عام کو جگہ دی گئی ہے۔ اس کے بعد اعمال اسلام نماز، زکوٰۃ کا ذکر ہے۔ پھر اخلاق فاضلہ کی ترغیب ہے۔ اس کے بعد صبر واستقلال کی تلقین ہے۔ یہ سب کچھ «بر» کی تفسیر ہے۔ معلوم ہوا کہ جملہ اعمال صالحہ واخلاق فاضلہ ارکان اسلام میں داخل ہیں۔ اور ایمان کی کمی وبیشی بہر حال وبہر صورت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مرجیہ جو اعمال صالحہ کو ایمان سے الگ اور بیکا ر محض قرار دیتے ہیں اور نجات کے لیے صرف ایمان کو کافی جانتے ہیں۔ ان کا یہ قول سراسر قرآن و سنت کے خلاف ہے۔

سورۃ مومنون کی آیات یہ ہیں «بسم الله الرحمٰن الرحيم قد افلح المومنون الذين هم فى صلاتهم خٰشعون والذين هم عن اللغومعرضون والذين هم للزكوة فٰعلون والذين هم لفروجهم حٰفظون الا عليٰ ازواجهم اوما ملكت ايمانهم فانهم غير ملومين فمن ابتغيٰ وراءذلك فاولٰئك هم العٰدون والذين هم لامٰنٰتهم وعهدهم رٰعون والذين هم عليٰ صلاتهم يحافظون اولٰئك هم الوارثون الذين يرثون الفردوس هم فيها خٰلدون» [المؤمنون: 11-1]
اس پیرایہ میں یہ بیان دوسرا اختیار کیا گیا ہے۔ مقصد ہر دو آیات کا ایک ہی ہے۔ ہاں اس میں بذیل اخلاق فاضلہ، عفت، عصمت شرم و حیا کو بھی خاص جگہ دی گئی ہے۔ اس جگہ سے آیت کا ارتباط اگلی حدیث سے ہو رہا ہے جس میں حیا کو بھی ایمان کی ایک شاخ قرار دیا گیا ہے۔

حضرت امام نے یہاں ہر دو آیت کے درمیان واؤ عاطفہ کا استعمال نہیں فرمایا۔ مگر بعض نسخوں میں واؤ عاطفہ اور بعض میں و قول اللہ کا اضافہ بھی ملتا ہے۔ اگر ان نسخوں کو نہ لیا جائے تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ وجہ بیان فرمائی کہ حضرت الامام پہلی آیت کی تفسیر میں «المتقون» کے بعد اس آیت کو بلا فصل اس لیے نقل کر رہے ہیں۔ تاکہ متقون کی تفسیر اس آیت کو قرار دے دیا جائے۔ مگر ترجیح واؤ عاطفہ اور و قول اللہ کے نسخوں کو حاصل ہے۔

آیات قرآنی کے بعد حضرت امام نے حدیث نبوی کو نقل فرمایا اور اشارتاً بتلایا کہ امور ایمان ان ہی کو کہا جانا چاہیے جو پہلے کتاب اللہ سے اور پھر سنت رسول سے ثابت ہوں۔ حدیث میں ایمان کو ایک درخت سے تشبیہ دیکر اس کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں بتلائی گئی ہیں۔ اس میں بھی مرجیہ کی صاف تردید مقصود ہے جو ایمان سے اعمال صالحہ کو بے جوڑ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ کی درخت کی جڑمیں اور اس کی ڈالیوں میں ایک ایسا قدرتی ربط ہے کہ ان کو باہمی طور پر بے جوڑ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ جڑ قائم ہے تو ڈالیاں اور پتے قائم ہیں۔ جڑ سوکھ رہی ہے تو ڈالیاں اور پتے بھی سوکھ رہے ہیں۔ ہو بہو ایمان کی یہی شان ہے۔ جس کی جڑ کلمہ طیبہ «لا اله الا الله» ہے۔ اور جملہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ وعقائد راسخہ اس کی ڈالیاں ہیں۔ اس سے ایمان واعمال صالحہ کا باہمی لازم ملزوم ہونا اور ایمان کا گھٹنا اور بڑھنا ہر دو امور ثابت ہیں۔

بعض روایت میں «بضع وستون» کی جگہ «بضع وسبعون» ہے اور ایک روایت میں «اربع وستون» ہے۔ اہل لغت نے «بضع» کا اطلاق تین اور نو کے درمیان عدد پر کیا ہے۔ کسی نے اس کا اطلاق ایک اور چار تک کیا ہے، روایت میں ایمان کی شاخون کی تحدید مراد نہیں بلکہ کثیر مراد ہے۔ علامہ طیبی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ بعض علماء تحدید مراد لیتے ہیں۔ پھر «ستون» (60) اور «سبعون» (70) اور زائد «سبعون» کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ زائد میں ناقص بھی شامل ہو جاتا ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک «ستون» (60) ہی متیقن ہے۔ کیونکہ مسلم شریف میں بروایت عبداللہ بن دینار جہاں «سبعون» کا لفظ آیا ہے بطریق شک واقع ہوا ہے۔

«والحياء شعبة من الايمان» میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ حیا طبیعت کے انفعال کو کہتے ہیں۔ جو کسی ایسے کام کے نتیجہ میں پیدا ہو جو کام عرفاً شرعاً مذموم، برا، بےحیائی سے متعلق سمجھا جاتا ہو۔ حیا وشرم ایمان کا اہم ترین درجہ ہے۔ بلکہ جملہ اعمال خیرات کا مخزن ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا «اذا لم تستحي فاصنع ما شئت» جب تم شرم و حیا کو اٹھا کر طاق پر رکھ دو پھر جو چاہو کرو۔ کوئی پابندی باقی نہیں رہ سکتی۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث ہذا کی تشریح میں مستقل ایک کتاب شعب الایمان کے نام سے مرتب فرمائی ہے۔ جس میں ستر سے کچھ زائد امور ایمان کو مدلل ومفصل بیان فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ امام ابو عبداللہ حلیمی نے فوائد المنہاج میں اور اسحاق ابن قرطبی نے کتاب النصائح میں اور امام ابو حاتم نے وصف الایمان و شعبہ میں اور دیگر حضرات نے بھی اپنی تصنیفات میں ان شاخوں کو معمولی فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان سب کو اعمال قلب (دل کے کام) اعمال لسان (زبان کے کام) اعمال بدن (بدن کے کام) پر تقسیم فرما کر اعمال قلب کی 24 شاخیں اور اعمال لسان کی سات شاخیں اور اعمال بدن کی 38 شاخیں بالتفصیل ذکر کی ہیں۔ جن کا مجموعہ 69 بن جاتا ہے۔ روایت مسلم میں ایمان کی اعلیٰ شاخ کلمہ طیبہ «لااله الا الله» اور ادنیٰ شاخ «اماطة الاذي عن الطريق» بتلائی گئی ہے۔ اس میں تعلق باللہ اور خدمت خلق کا ایک لطیف اشارہ ہے۔ گویا دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ تب ایمان کامل حاصل ہوتا ہے۔ خدمت خلق میں راستوں کی صفائی، سڑکوں کی درستگی کو لفظ ادنیٰ سے تعبیر کیا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خدمت خلق کا مضمون بہت ہی وسیع ہے۔ یہ تو ایک معمولی کام ہے جس پر اشارہ کیا گیا ہے۔ ایمان باللہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے شروع ہو کر اس کی مخلوق پر رحم کرنے اور مخلوق کی ہر ممکن خدمت کرنے پر جا کر مکمل ہوتا ہے۔ اس شعر کے یہی معنی ہیں

❀ خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر ٭ نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
❀ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر ٭ خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 9   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 5  
´ایمان، دل اور زبان کے اقرار کے ساتھ اعمال کا نام ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " الْإِيمَانُ بضع وَسَبْعُونَ شُعْبَة فأفضلها: قَول لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَدْنَاهَا: إِمَاطَةُ الْأَذَى عَن الطَّرِيق والحياة شُعْبَة من الايمان " . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی شاخیں ستر سے زیادہ ہیں سب سے اعلیٰ درجہ کی شاخ «لا اله الا الله» کہنا ہے، اور سب سے ادنیٰ شاخ، تکلیف دہ چیزوں کا راستہ سے دور کر دینا ہے، اور شرم ایمان کی ایک شاخ ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 5]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 9]،
[صحيح مسلم 153،152 واللفظه له]

فقہ الحدیث
➊ عربی لغت میں «بضع» کا لفظ: تین سے لے کر نو تک کے عدد پر بولا جاتا ہے۔ [القاموس الوحيد 169/1]
➋ بعض روایات میں ساٹھ سے زائد درجوں کا ذکر آیا ہے [صحيح بخاري: 9] ایک روایت میں چونسٹھ [الترمذي: 2614ب، احمد 379/2 ح 8913 وسنده صحيح، والقول بشذوذه قول شاذ] اور دوسری روایت میں بہتر [72] کا عدد آیا ہے۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان 202/1 ح 181، وقال: بخبر غريب غريب، دوسرا نسخه 407/1 ح 181 وقال شعيب الأرناووط: أسناده صحيح عليٰ شرطهما]
بعض علماء کہتے ہیں کہ یہاں تحدید (حد بندی) مراد نہیں بلکہ کثرت مراد ہے، اور بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ سب الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے ہیں جو کہ راویوں نے یاد رکھے ہیں، یہاں تین باتیں ملحوظ خاطر ہیں:
اول: یہ درجات مختلف لوگوں کے احوال سے ہیں، مثلاً انبیاء، صحابہ، تابعین، تبع تابعین، شہداء، صدیقین و صالحین کے ستر سے زائد درجے ہیں، اسی طرح علماء اور عوام کے درجات میں بھی فرق ہے۔
دوم: بعض علماء کے نزدیک ایمان کے ان درجات میں سے بعض درجوں کی آگے ایک دو شاخیں ہیں، اس لحاظ سے جب ساٹھ سے زیادہ کا عدد بولا جائے گا تو اصل درجات مراد ہوں گے اور اگر ستر سے زیادہ کا عدد بولا جائے گا تو بعض درجات کی شاخیں بھی شامل ہوں گی۔
سوم: بعض کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ساٹھ سے زائد درجات اور احادیث مطہرہ میں ستر سے زائد درجات کا ذکر موجود ہے، لہٰذا جب ساٹھ کا لفظ بولا جائے گا تو کتاب اللہ کے درجے مراد ہوں گے اور ستر کے لفظ سے کتاب و سنت، دونوں کے درجات مراد ہوں گے۔ «والله اعلم»
➌ عینی حنفی نے ایمان کے ستتر 77 درجات کے نام لکھ کر شرح صحیح بخاری میں جمع کر دیے ہیں۔ [عمدةالقاري 128/1۔ 129 ح 9]
➍ ایمان کے ان درجات کے نام بالتفصیل معلوم ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ یہی کافی ہے کہ آدمی قرآن و حدیث و اجماع پر ایمان رکھے۔ ایک مسلمان جب راستے سے ہڈی وغیرہ اٹھا کر راستہ صاف کر رہا ہوتا ہے تو یہ ایمان کا ایک درجہ ہے، اگرچہ اسے یہ علم بھی نہ ہو اور وہ اسے نیکی کا ایک معمولی کام ہی سمجھتا ہو۔
➎ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان، دل اور زبان کے اقرار کے ساتھ اعمال کا نام ہے۔ اسی پر تمام اہل حق کا اجماع ہے۔
◈ شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وتعتقد أن الايمان قول باللسان و معرفة بالجنان و عمل بالأر كان، يزيد بالطاعة وينقص بالعصيان»
اور یہ عقیدہ رکھو کہ ایمان ① زبان کے ساتھ اقرار ② دل کے ساتھ یقین ③ اور ارکان کے ساتھ عمل کا نام ہے ④ اطاعت سے زیادہ ہوتا ہے ⑤ اور نافرمانی سے کم ہوتا ہے۔ [غنية الطالبين 109/1]
◈ تقریباً یہی کلام و مفہوم شرح السنۃ للبغوی [39/1 ح 19] وغیرہ میں لکھا ہوا ہے۔
◈ قاضی عبدالرحمٰن دیوبندی صاحب فرماتے ہیں:
اور میری آخری تحقیق یہ ہے کہ حنفیہ بھی اعمال کو ایمان کا جزء مانتے ہیں۔ [فضل الباري شرح اردو صحيح بخاري 317/1، از افادات شبير احمد عثماني]
➏ ایمان کے مختلف درجے ہیں، لہٰذا یہ زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔
سیدنا عمیر بن حبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے اور کم (بھی) ہوتا ہے۔ [كتاب الايمان لابن ابي شيبه: 14 وسنده صحيح، الحديث: 23/2 توضيح الاحكام]
امام مالک، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، ابن جریج اور معمر کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل  (کا نام) ہے، زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔ [كتاب الشريعة للآجري ص 119 ح 243، وسنده صحيح]
یہی عقیدہ امام احمد بن حنبل، اوزاعی اور وکیع وغیرہم سے ثابت ہے۔ [الشريعة ص120، 119، باسانيد صحيحه]
➐ حیا کا ذکر یہاں بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ ایمان کا ایک اہم ترین درجہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الحياء لا ياتي إلا بخير» حیا نیکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں لاتی۔ [صحيح بخاري: 6117 و صحيح مسلم: 156]
ایک روایت میں ہے «الحياء خير كله» ساری خیر (نیکی) حیا ہے۔ [صحيح مسلم 37/61 وترقيم دارالسلام: 157]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذا لم تستح فاصنع ما شئت» اگر تیرے اندر حیا نہیں تو جو مرضی ہے کر۔ [صحيح بخاري: 6120]
➑ اس روایت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں، مگر ثبوت شئی کے بعد اس کا عدم ذکر، نفی کی دلیل نہیں ہوتا، دوسرے یہ کہ لا الٰہ الا اللہ کا لازمی تقاضا یہی ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لایا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد، آپ پر ایمان کے بغیر لا الٰہ الا اللہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 5   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث57  
´ایمان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کے ساٹھ یا ستر سے زائد شعبے (شاخیں) ہیں، ان میں سے ادنی (سب سے چھوٹا) شعبہ ۱؎ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے، اور سب سے اعلیٰ اور بہتر شعبہ «لا إله إلا الله» اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہنا ہے، اور شرم و حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 57]
اردو حاشہ:
(1)
ایمان کی مثال ایک درخت کی سی ہے، توحید و رسالت پر ایمان اس کی جڑ ہے اور اعمال صالحہ شاخیں اور دنیوی اور اخروی فوائد اس کے پھل ہیں، اگر درخت کی جڑ باقی نہ رہے تو درخت بھی قائم نہیں رہ سکتا، البتہ اگر کوئی شاخ کٹ جائے تو درخت پھر بھی قائم رہتا ہے اگرچہ ناقص ہو جاتا ہے۔
اسی طرح گناہوں سے ایمان میں نقص پیدا ہوتا ہے اور نیکیوں سے ایمان کی تکمیل و ترقی ہوتی ہے۔

(2)
سبھی نیکیاں ایمان کی شاخیں ہیں لیکن سب سے اہم کلمہ توحید لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا زبان سے اقرار ہے کیونکہ اسی کے نتیجے میں اسے ایمان کے دیگر فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
زبان کے ساتھ اقرار کے بغیر ایمان معتبر نہیں۔

(3)
کسی نیکی کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرنا درست نہیں کیونکہ مومن کے دل میں نیکی کی خواہش ایمان ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے وہ ایمان کی شاخ ہے۔

(4)
حیا ایمان کی ایک اہم شاخ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انسان بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے، البتہ اس سے وہ بے جا حیا مراد نہیں جو انسان کو دینی مسائل پوچھنے سے، علم حاصل کرنے سے یا نیکی کا کوئی اور کام کرنے سے روک دے۔

(5)
ایمان میں زبانی اعمال بھی شامل ہیں اور قلبی اعمال بھی اور دوسرے اعضاء جوارح سے انجام دیے جانے والے اعمال بھی مثلا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا اقرار زبان کا عمل ہے، اس پر یقین رکھنا دل کا عمل ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا دیگر اعضاء کا عمل ہے۔
یہ سب ایمان کی شاخیں اور اس کے اجزاء ہیں۔

(6)
ہر وہ عمل اچھا اور مطلوب ہے جس سے عام انسانوں کو فائدہ پہنچے۔
ضرروی نہیں کہ وہ فائدہ صرف مسلمانوں تک محدود ہو، بشرطیکہ اس سے اسلام کے کسی اور حکم کی مخالفت نہ ہوتی ہو۔

(7)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان کے کئی جزء ہیں اور جس چیز کے اجزاء ہوتے ہیں اس چیز میں کمی و بیشی ضررو ہوتی ہے، لہذا ایمان میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے۔

(8)
ایمان کی ان شاخوں پر عمل کے اعتبار سے جس قدر مومن مضبوط ہو گا اس کا ایمان بھی زیادہ ہو گا اور جس قدر کمزور ہو گا اس کا ایمان بھی اسی قدر کم ہو گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 57   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2614  
´ایمان کے کامل ہونے اور اس میں کمی و زیادتی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی تہتر شاخیں (ستر دروازے) ہیں۔ سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کا دور کر دینا ہے، اور سب سے بلند «لا إلہ الا اللہ» کا کہنا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2614]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ عمل کے حساب سے ایمان کے مختلف مراتب و درجات ہیں،
یہ بھی معلوم ہواکہ ایمان اور عمل ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2614   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4676  
´ارجاء کی تردید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل لا إله إلا الله کہنا، اور سب سے کم تر راستے سے ہڈی ہٹانا ہے ۲؎، اور حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۳؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4676]
فوائد ومسائل:
1: سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے نزدیک ایمان زبان کے قول، دل کی حقیقی تصدیق اور اعضاء کے اعمال کا نام ہے، شیخ محی الدین کا قول ہے: یہ بات واضح اور راجح ہے کہ زیادہ سے زیادہ غور وفکر اور واضح سے واضح تر دلیل کی وجہ سے تصدیق قلب میں زیادتی ہوتی ہے، جب صدیقیت حاصل ہو تو اس کا ایمان دوسروں سے زیادہ اور مضبوط ہوتا ہے۔
تصدیق قلب کا عمل ہے باقی اعضاء کے عمل بھی زیادہ کم ہوں گے تو یہ ایمان کی کمی یا اضافے کا سبب ہوں گے، کیونکہ عمل ایمان کے کمال میں شامل ہے۔
سلف صالحین کے نزدیک دیگر اعضاء (اعضائے ظاہری) کے عمل کمال ایمان کی شرط ہیں، البتہ معتزلہ کے نزدیک یہ اعمال ایمان کی صحت کی شرط ہیں۔
(فتح الباري،کتاب الإیمان)
2: سو جو کوئی جس قدر شرعی اعمال بجا لائے اسی قدر اس کا ایمان کا مل ہوتا جائے گا ورنہ اسی قدر ناقص رہے گا۔
جب آپ نے ایمان کے مدارج بیان فرمائے ہیں تو مرجہ کا یہ قول کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ ایمان کم وپیش نہیں ہوتا۔

3: سب سے افضل اوراعلی عمل «لا إله إلا الله» (توحید) کا قرارہے اور محمد رسول ؐ کی رسالت کا اقرار اس کا لازمی حصہ ہے، کیونکہ توحید وہی معتبر ہے جو رسول ؐ نے بتائی ہے لہذا جو شخص رسالت کا منکر ہو اس کی توحید بھی معتبر نہیں، جیسے کی درج ذیل حدیث میں وضاحت آرہی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4676