سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
17. باب فِي الْقَدَرِ
باب: تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔
حدیث نمبر: 4691
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بِمِنًى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْقَدَرِيَّةُ مَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قدریہ (منکرین تقدیر) اس امت (محمدیہ) کے مجوس ہیں، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک مت ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 7088)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/86) (حسن)» ‏‏‏‏ (شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ ابو حازم کا سماع ابن عمر سے نہیں ہے)

وضاحت: ۱؎: قدریہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو تقدیر کا منکر ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے، اس فرقہ کو مجوس سے اس لئے تشبیہ دی کہ مجوس دو خالق کے قائل ہیں، یعنی خالق شر و خالق خیر: خالق شر کو اہرمن اور خالق خیر کو یزداں کہتے ہیں، جبکہ اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ خالق صرف ایک ہے چنانچہ  «هل من خالق غير الله» فرما کر قرآن نے دوسرے کسی خالق کی تردید فرما دی، انسان جو کچھ کرتا ہے اس کو اس کا اختیار اللہ ہی نے دیا ہے، اگر نیک عمل کرے گا تو ثواب پائے گا، بد کرے گا تو عذاب پائے گا، ہر فعل کا خالق اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی نہیں، یہ مسئلہ نہایت معرکۃ الآراء ہے، عام آدمی کو اس کی ٹوہ میں نہیں پڑنا چاہئے، سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ مسلمان تقدیر پر ایمان رکھے اور شیطان کے وسوسہ سے بچے، تقدیر کے منکروں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے ان سے میل جول بھی درست نہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 107  
´منکرین تقدیر کا عبرت ناک انجام`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْقَدَرِيَّةُ مَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تشهدوهم» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد . . .»
. . . اور انہی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قدریہ (یعنی منکرین تقدیر) اس امت کے مجوسی ہیں اگر یہ بیمار ہوں تو ان کی بیمار پرسی نہ کرو اور اگر مر جائیں تو ان کے جنازے میں نہ شریک ہو۔ اس حدیث کو احمد، داؤد نے روایت کیا ہے۔ (یعنی یہ تو کافر ہیں یا فاسق ہیں ان سے ترک موالات کرنا ضروری ہے۔ مجوس آگ پوجنے والے کو کہتے ہیں یہ کافر ہیں۔) . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 107]

تخریج:
[سنن ابوداود 4691]

تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ (لیکن حدیث صحیح ہے۔)
اسے حاکم [85/1] اور دوسرے محدثین نے بھی بیان کیا ہے، لیکن اس کی سند منقطع ہے۔
ابوحازم سلمہ بن دینار نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نہیں سنا۔ دیکھئے: تہذیب الکمال [431/7]
(عبدالعزیز) ابن ابی حازم نے کہا:
«من حدّثك أن أبى سمع من أحد من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم غير سهل بن سعد فقد كذب»
جو شخص تجھے بتائے کہ میرے والد نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے سنا ہے تو اس نے جھوٹ کہا۔ [تاريخ ابي زرعه الدمشقي: 1089 وسنده صحيح]
◈ المعجم الاوسط للطبرانی [114/5 ح 4217] میں اس کا ایک صحیح شاہد ہے۔
◈ حمید الطویل کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کے لئے دیکھئے: [اضواء المصابيح صفحه 318]
◈ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے قدریوں کے بارے میں فرمایا:
«أولٰئك مجوس هٰذه الأمة»
وہ اس امت کے مجوسی ہیں۔ [السنة لعبدالله بن أحمد: 958 وسنده حسن]
◈ امام بیہقی نے کتاب القدر [ح410] میں اس مفہوم کی روایت «سفيان (الثوري) عن عمر بن محمد عن نافع عن ابن عمر» کی سند سے بیان کر کے کہا: «هٰذا إسناد صحيح إلا أنه موقوف» !
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 107   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4691  
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قدریہ (منکرین تقدیر) اس امت (محمدیہ) کے مجوس ہیں، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک مت ہو ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4691]
فوائد ومسائل:
1: مجوسی دوالہوں کے قائل ہیں، ایک خالق خیر سے وہ یزواں کہتے ہیں اور دوسرا خالق شر جسے وہ اہرمن کا نام دیتے ہیں، اسی طرح تقدیر کے منکر خیرکو اللہ کی اور شر کو غیر اللہ کی خلق سمجھتے ہیں، حالانکہ خلق اور ایجاد میں اللہ عزوجل کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہے، نہ کوئی اس پر غالب ہے، اس نے اپنی حکمت کے تحت شر اور شیطان کو پیدا کیا ہے اور انسان اللہ عزوجل کی مشیت اور ارادے کے معنی ہمیشہ رضامندی الگ الگ دوچیزیں ہیں۔
جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ یقینامشیت الہی ہی سے ہوتا ہے، اس کے بغیر اچھا یا برا کوئی کام بھی نہیں ہوتا، لیکن یہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالی کا پسندیدہ بھی ہو۔
اللہ تعالی کو تو صرف وہی کام پسند ہیں جن کے کرنے کااس نے حکم دیا ہے۔
باقی کام ناپسندیدہ ہیں گو ہوتے وہ بھی اس کی مشیت ہی سے ہیں۔

2: اسلامی معاشرے میں شرعی اقدار کا تحفظ کرنے کےلئے ضروری ہے کہ ملحد اور بد عقیدہ کوگوں سے مقاطعہ کیا جائے تاکہ صاحب ایمان کی غیرت کا اظہار ہو اور انہیں مومنین سے جدا ہونے کا احساس رہے، مگر اہل علم پر لازم ہے کہ ان کے سامنے حق کا اظہار اور ان غلطیوں کی نشاندہی کریں۔

3: بعض حضرات نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4691   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4613  
´سنت پر عمل کرنے کی دعوت دینے والوں کے اجر و ثواب کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک شامی دوست تھا جو ان سے خط و کتابت رکھتا تھا، تو عبداللہ بن عمر نے اسے لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے تقدیر کے سلسلے میں (سلف کے قول کے خلاف) کوئی بات کہی ہے، لہٰذا اب تم مجھ سے خط و کتابت نہ رکھنا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو تقدیر کو جھٹلائیں گے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4613]
فوائد ومسائل:
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا یہ مقاطعہ (اعلان لاتعلقی) بغض فی اللہ کا اظہار تھا اور بلاشبہ اہل ایمان کی دوستی اور ناراضی اور اس کے دین کے ساتھ وابستہ رہنے کی بنیاد ہی پر ہوتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4613