سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
17. باب فِي الْقَدَرِ
باب: تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔
حدیث نمبر: 4695
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا، وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ، فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَاءِ فِي الْقَدَرِ فَوَفَّقَ اللَّهُ لَنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ دَاخِلًا فِي الْمَسْجِدِ فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي، فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ فَقُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَفَقَّرُونَ الْعِلْمَ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَالْأَمْرَ أُنُفٌ، فَقَالَ: إِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ وَهُمْ بُرَآءُ مِنِّي وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا نَعْرِفُهُ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا، قَالَ: أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ".
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کا انکار کیا، ہم اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری حج یا عمرے کے لیے چلے، تو ہم نے دل میں کہا: اگر ہماری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق لوگ جو باتیں کہتے ہیں اس کے بارے میں دریافت کریں گے، تو اللہ نے ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کرا دی، وہ ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے، چنانچہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا، میرا خیال تھا کہ میرے ساتھی گفتگو کا موقع مجھے ہی دیں گے اس لیے میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن پڑھتے اور اس میں علمی باریکیاں نکالتے ہیں، کہتے ہیں: تقدیر کوئی چیز نہیں ۱؎، سارے کام یوں ہی ہوتے ہیں، تو آپ نے عرض کیا: جب تم ان سے ملنا تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں، اور وہ مجھ سے بری ہیں (میرا ان سے کوئی تعلق نہیں)، اس ہستی کی قسم، جس کی قسم عبداللہ بن عمر کھایا کرتا ہے، اگر ان میں ایک شخص کے پاس احد کے برابر سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو بھی اللہ اس کے کسی عمل کو قبول نہ فرمائے گا، جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لے آئے، پھر آپ نے کہا: مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا جس کا لباس نہایت سفید اور بال انتہائی کالے تھے، اس پر نہ تو سفر کے آثار دکھائی دے رہے تھے، اور نہ ہی ہم اسے پہچانتے تھے، یہاں تک کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر بیٹھ گیا، اس نے اپنے گھٹنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملا دئیے، اور اپنی ہتھیلیوں کو آپ کی رانوں پر رکھ لیا اور عرض کیا: محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روز ے رکھو، اور اگر پہنچنے کی قدرت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو وہ بولا: آپ نے سچ کہا، عمر بن خطاب کہتے ہیں: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور تقدیر ۲؎ کے بھلے یا برے ہونے پر ایمان لاؤ اس نے کہا: آپ نے سچ کہا۔ پھر پوچھا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو سکے تو (یہ تصور رکھو کہ) وہ تو تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے اس نے کہا: مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے پوچھا جا رہا ہے، وہ اس بارے میں پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۳؎۔ اس نے کہا: تو مجھے اس کی علامتیں ہی بتا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۴؎، اور یہ کہ تم ننگے پیر اور ننگے بدن، محتاج، بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں فخر و مباہات کریں گے پھر وہ چلا گیا، پھر میں تین ۵؎ (ساعت) تک ٹھہرا رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ پوچھنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرائیل تھے، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 1 (8)، سنن الترمذی/الإیمان 4 (2610)، سنن النسائی/الإیمان 5 (4993)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (63)، (تحفة الأشراف: 10572)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان 37 (50)، تفسیر سورة لقمان 2 (7774)، مسند احمد (1/27، 28، 51، 52) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بندہ اپنے افعال میں خود مختار ہے اور وہی ان کا خالق ہے۔
۲؎: یعنی اللہ تعالی نے ہر چیز کا اندازہ مقرر فرما دیا ہے اب ہر شیٔ اسی اندازے کے مطابق اس کے پیدا کرنے سے ہو رہی ہے کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر نہیں ہوتی۔
۳؎: مطلب یہاں یہ ہے کہ قیامت کے وقوع کا علم چونکہ اللہ نے کسی کو نہیں دیا اس لئے نہ تم جانتے ہو اور نہ میں، بلکہ ہر سائل اور مسئول قیامت کے بارے میں ایسا ہی ہے یعنی نہیں جانتا، ہاں قیامت علامات بتلائی گئی ہیں جس سے عبرت حاصل کر کے نیک عمل کرنا چاہئے۔
۴؎: اس کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے گا، اولاد اپنے والدین کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرنے لگے گی۔
۵؎: تین ساعت یا تین رات یا چند لمحے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 93  
´فرشتے کا انسانی شکل میں آنا `
«. . . فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ . . .»
۔۔۔ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے تم کو تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔۔۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْإِيمَانِ: 93]

فوائد:
نماز کے بعد ذکر کے سلسلے میں حدیث زيد بن ثابت [سنن نسائي: 1351]، اذان کے سلسلے میں حدیث عبداللہ بن زید بن عبدربہ [سنن ابي داؤد: 499 و اسناده حسن] اور مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کی غرض سے فرشتے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم (بذریعہ وحی) اس کی تصدیق فرما دیتے تھے۔ واضح رہے کہ شریعت میں غیر نبی کے خواب قطعاً حجت نہیں ہیں، اِلاَّ یہ کہ دور نبوی میں جن خوابوں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصدیق فرمائی ہو، علاوہ ازیں کسی خواب سے کوئی شرعی مسئلہ اخذ نہیں کیا جا سکتا جبکہ بعض الناس کے مسالک و مذاہب کی بنیاد ہی خوابوں پر ہے جو صریحاً باطل ہے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 6   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 2  
´ایمان قول و عمل کا نام ہے`
«عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فأسند رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخْذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ . . .»
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص آ موجود ہوا جس کے کپڑے بہت صاف و شفاف اور اس کے بال نہایت ہی سیاہ تھے اس پر کوئی سفر کی نشانی نہیں دیکھی، پائی جاتی تھی اور نہ ہم لوگوں میں سے کوئی انہیں پہچانتا ہی تھا، یہاں تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گیاکہ آپ کے گھٹنے سے اپنے گھٹنے ملا دیے اور اپنے دونوں ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں زانوئے مبارک پر رکھ کر یوں کہنا شروع کیا کہ اے محمد! آپ مجھے یہ خبر دیجئے کہ اسلام کیا ہے؟ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 2]

تخریج الحدیث:
[صحيح مسلم 93]

فقہ الحدیث:
➊ یہ ایک عظیم الشان حدیث ہے، محذوفہ حصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان لوگوں سے برأت کا اعلان کیا جو تقدیر کے منکر تھے اور فرمایا: اگر ان (منکرین تقدیر) میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی (اللہ کی راہ) میں خرچ کر دے تو اللہ اسے قبول نہیں کرے گا۔ معلوم ہوا کہ (بدعت کبرٰی کے) مبتدعین کے اعمال باطل ہوتے ہیں۔
➋ ایمان قول و عمل کا نام ہے، نماز رمضان کے روزے اور حج، چاروں اعمال اور ایمان اور ارکان ایمان میں سے ہیں۔
➌ قیامت آنے کی صحیح تاریخ اور وقت صرف اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے، اللہ کے سوا کوئی بھی عالم الغیب نہیں ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے غیب کی جو خبریں بیان فرمائیں، وہ سب وحی الہٰی کے ذریعے سے بتائیں تھیں۔ صحابہ کرام بھی غیب نہیں جانتے تھے، ورنہ جبرائیل علیہ السلام کو پہلے ہی پہچان لیتے۔
➍ فرشتے انسانی شکل میں تمثل کر کے دنیا میں آتے رہے ہیں، اگرچہ ان کی اصل شکل و صورت اس کے علاوہ ہے اور فرشتوں کے پر بھی ہوتے ہیں۔
➎ یہ حدیث بہت زیادہ فوائد پر مشتمل ہے۔ سعودی عرب کے کبار علماء میں سے شیخ عبدالمحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ نے اس حدیث مبارکہ کہ شرح میں (79 صفحات کی) ایک زبردست مفید کتاب «شرح حديث جبريل فى تعليم الدين» لکھی ہے جس میں انہوں نے بہت سے فوائد جمع کر لیے ہیں، جزاہ اللہ خیرا۔

تنبیہ:
یہ کتاب میرے اردو ترجمے اور تحقیق و فوائد کے ساتھ مطبوع ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس لائق ہے کہ اسے ام السنۃ (سنت کی ماں) کہا جائے، کیونکہ اس میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی) سنت کے (بہت سے) جملوں کا علم ہے۔ [فتح الباری125/1]
➏ نصوص شرعیہ سے ثابت ہے کہ ہر مکلف مسلمان پر دن رات میں پانچ نمازیں، ہر سال رمضان کے روزے ہر سال میں ایک دفعہ زکوٰۃ اور عمر بھر میں صرف ایک دفعہ حج فرض ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 2   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث63  
´ایمان کا بیان۔`
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا، جس کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال نہایت کالے تھے، اس پہ سفر کے آثار ظاہر نہیں تھے، اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا، اور اپنا گھٹنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے سے ملا لیا، اور اپنے دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ران پر رکھا، پھر بولا: اے محمد! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 63]
اردو حاشہ:
(1)
یہ حدیث حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے مشہور ہے، اس میں دین کے اہم مسائل مذکور ہیں۔
اس میں عبادات بھی ہیں، دل اور باقی جسم کے اعمال بھی، واجبات، سنن اور مستحبات بھی اور ممنوع اور مکروہ امور بھی۔

(2)
اسلام سے ظاہری اعمال مراد ہیں جن کو دیکھ کر کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اور ایمان سے قلبی تصدیق و یقین مراد ہے جس پر آخرت مین نجات کا دارومدار ہے۔
احسان بھی ایمان ہی کا اعلیٰ درجہ ہے جس کےسبب عبادت میں حسن پیدا ہوتا ہے۔

(3)
اکثر اوقات جب ایمان کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے باطنی تصدیق کے ساتھ ساتھ ظاہری اعمال بھی مراد ہوتے ہیں۔
اسی طرح اسلام سے وہ اسلام مراد ہوتا ہے جس سے آخرت میں نجات حاصل ہو گی، یعنی دلی تصدیق کی بنیاد پر نیک اعمال کی انجام دہی، اس لحاظ سے ایمان اور اسلام ہم معنی ہو جاتے ہیں جب کہ الگ الگ ذکر ہوں، البتہ جب کسی مقام پر ایمان اور اسلام دونوں اکھٹے مذکور ہوں تو ایمان سے قلبی تصدیق مراد ہوتی ہے اور اسلام سے ظاہری اطاعت کے اعمال جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قالَتِ الأَعر‌ابُ ءامَنّا قُل لَم تُؤمِنوا وَلـكِن قولوا أَسلَمنا﴾  (الحجرات: 14)
 بدو کہتے ہیں ہم ایمان لائے، آپ کہہ دیجئے (حقیقت میں)
تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے (مخالفت چھوڑ کر مطیع ہو گئے۔)

(4)
اللہ کی عبادت اس طرح کرنا جیسے کہ اللہ کی ذات رو برو ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قلبی توجہ، نابت، خشوع، خوف و رجا وغیرہ کی کیفیات اپنے کمال پر ہوں، ورنہ اللہ کی زیارت دنیا میں رہتے ہوئے ممکن نہیں، کوئی مخلوق اسے برداشت نہیں کر سکتی، البتہ جنت میں مومنوں کو اللہ کا دیدار نصیب ہو گا، اس میں کوئی شک نہیں، قرآن و حدیث کی واضح نصوص میں اس کی صراحت موجود ہے، البتہ اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ دیکھیے (صحيح البخاري، حديث: 7437 اور صحيح مسلم، حديث: 182)

(5)
قیامت قائم ہونے کا وقت بالتعيين کوئی نہیں جانتا، پیغمبر نہ فرشتے، صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے کیونکہ وہی علام الغیوب ہے۔

(6)
قیامت کی بہت سی علامات حدیثوں میں وارد ہیں، ان میں سے کچھ قیامت سے کافی پہلے واقع ہو چکی ہیں، مثلا:
بعثت نبوی، ارض حجاز سے ظاہر ہونے والی آگ، جس سے شام کے شہر بصری میں بھی روشنی ہو گئی، یہ واقعہ 654 ھ میں پیش آیا۔
تفصیل کے لیے دیکھیے (فتح الباري شرح صحيح البخاري، كتاب الفتن، باب خروج النار)
اور بعض ابھی ظاہر ہونے والی ہیں، مثلا:
ظہور دجال اور امام مہدی کا ظہور، نزول مسیح علیہ السلام اور یاجوج ماجوج کا خروج۔
یہ بڑی بڑی علامات ہیں، زیر نظر حدیث میں چھوٹی علامات ذکر کی گئی ہیں۔

(7) (أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا)
لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اس جملے کی وضاحت کئی طرح سے کی گئی ہے:

(ا)
ایک مطلب یہ ہے کہ لونڈیوں کی کثرت ہو جائے گی اور لونڈیوں سے جو اولاد ہو گی، وہ آقا کی اولاد ہونے کی وجہ سے آقا کے حکم میں ہو گی جبکہ ان کی ماں لونڈی ہی کہلائے گی اور بیٹی اپنی ماں کی مالک قرار دی جائے گی۔
حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ کا قول اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔

(ب)
ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اولاد اپنے والدین کا ادب و احترام کرنے کے بجائے ان سے گستاخی اور سرکشی کا رویہ رکھے گی اور ان پر اس طرح حکم چلائے گی جس طرح آقا اپنے غلاموں اور لونڈیوں سے درشت سلوک روا رکھتے ہیں۔

(ج)
ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اس حدیث میں جدید دور میں پیدا ہونے والے بعض مسائل کی طرف اشارہ ہے، مثلا:
ایسے تجربات کیے گئے ہیں جن میں مذکر اور مونث کے مادہ تولید کو مونث کے جسم سے باہر ملا کر تجربہ گاہ میں جنین وجود میں لایا گیا جسے بعد میں کسی اور مونث کے جسم میں رکھ کر تخلیقی مراحل کی تکمیل ہوئی۔
اس طرح مولود جس کے جسم میں پیدا ہوا، اس کے مادہ تولید سے پیدا نہیں ہوا۔
ان تجربات کے نتیجے میں یہ عین ممکن ہے کہ کوئی دولت مند میاں بیوی اپنا جنین کسی غریب عورت کے جسم میں پروان چڑھائیں جو تھوڑی اجرت کے بدلے مشقت برداشت کرنے پر تیار ہو سکتی ہے، جب بچہ پیدا ہو گا تو دولت مند میاں بیوی ہی اس کے ماں باپ مانے جائیں گے، اور جس عورت نے اس کی پیدائش کی تکلیف اٹھائی ہو گی، وہ اجیر یا مملوک ہی رہے گی اور پیدا ہونے والا بچہ اسے اپنی ماں نہیں بلکہ نوکرانی ہی تصور کرے گا اور خود وہ عورت بھی اپنی یہی حیثیت سمجھے گی۔
موجودہ دور میں اخلاقی اقدار جس تیزی سے روبہ زوال ہیں، اس کے مدنظر یہ کچھ بعید نہیں کہ عملا یہ صورت رواج پا جائے۔
واللہ أعلم. یورپ میں، جہاں عفت و پاک دامنی کا تصور ختم ہو گیا ہے، اب اس قسم کی صورتیں اختیار کی جانے لگی ہیں۔
اللہ تعالیٰ اسلامی معاشروں کو اس اخلاقی پستی سے محفوظ رکھے۔

(8)
جب غربت کے بعد دولت نصیب ہو تو صحیح طرز عمل یہ ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر کرتے ہوئے ناداروں کی ضروریات بھی پوری کی جائیں تاکہ اخروی فوائد بھی حاصل ہو سکیں، جیسے قارون کو اس کی قوم کے افراد نے کہا تھا:
﴿وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ﴾ (القصص: 77)
 اور جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے تو بھی (دوسروں پر)
احسان کر۔ (9)
محض اپنے فائدے اور راحت کے لیے اور فخرومباہات کے لیے لمبی چوڑی عمارتیں بنانا درست نہیں۔

(10)
عقائد اور اعمال یہ سب دین ہے، لہذا اخروی نجات کے لیے صحیح عقیدہ اور صحیح عمل دونوں ضروری ہیں۔

(11)
تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ ابد تک جو کچھ ہو گا اللہ کو وہ سب کچھ پہلے سے معلوم ہے۔
اب جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے اس علم کے مطابق ہوتا ہے جو اس نے لکھ رکھا ہے۔
تقدیر کے اچھے برے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے لیے بظاہر خیر ہے، مثلا:
تندرستی، خوشحالی، پیداوار کی کثرت اور فراوانی یا جسے ہم شر قرار دیتے ہیں، مثلا:
قحط سالی، آلام و مصائب، یہ سب کچھ اس کی مرضی اور حکمت کے مطابق ہو رہا ہے۔
اسے خیر و شر مخلوق کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے ورنہ اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے وہ خیر ہی ہوتا ہے۔

(12)
جبریل امین علیہ السلام کا قرآنی وحی لے كر آنا تو مشہور و معروف ہے، علاوہ ازیں دین اسلام کے مسائل کی توضیح و تعلیم کے لیے جبریل علیہ السلام کا آنا بھی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے۔

(13)
دینی و اسلامی مسائل سیکھنے کے متعدد طریقے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سوالات و جوابات کی مجلس و نشست قائم کی جائے، اس انداز سے مسائل خوب ذہن نشین ہو جاتے ہیں۔

(14)
سائل کو مسئول کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ادب و احترام سے بیٹھنا چاہیے اور انداز گفتگو نہایت نرم اور مؤدبانہ ہونا چاہیے۔

(15)
جبریل امین علیہ السلام نے سفید لباس اختیار کیا تھا، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید لباس پر رغبت دلائی اور خود بھی پسند کیا حتی کہ مُردوں کے لیے بھی سفید کفن کو منتخب کیا۔ (جَامِعُ التِّرْمَذِي، الأدبُ، بَابَ مَا جَاءَ فِي لبسِ الْبيَاضِ، حَدِيْث: 2810)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 63   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2610  
´جبرائیل علیہ السلام کا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ایمان و اسلام کے اوصاف بیان کرنا۔`
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر کے انکار کی بات کی وہ معبد جہنی ہے، میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری دونوں (سفر پر) نکلے یہاں تک کہ مدینہ پہنچے، ہم نے (آپس میں بات کرتے ہوئے) کہا: کاش ہماری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے اس نئے فتنے کے متعلق پوچھیں جو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے، چنانچہ (خوش قسمتی سے) ہماری ان سے یعنی عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے کہ جب وہ مسجد سے نکل رہے تھے، ملاقات ہو گئی، پھر میں نے اور میرے ساتھی نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2610]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
ایک ان کے داہنے ہو گیا اور دوسرا ان کے بائیں۔ 2؎:
یعنی جب کوئی چیز واقع ہوجاتی ہے تب اللہ کو اس کی خبر ہوتی ہے،
پہلے سے ہی کوئی چیزلکھی ہوئی اورمتعین شدہ نہیں ہے۔
3؎:
یعنی لونڈی زادی مالکہ بن جائے گی اور جسے مالکہ کے مقام پر ہونا چاہئے وہ لونڈی کے مقام ودرجہ پرپہنچا دی جائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2610   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4695  
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔`
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کا انکار کیا، ہم اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری حج یا عمرے کے لیے چلے، تو ہم نے دل میں کہا: اگر ہماری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق لوگ جو باتیں کہتے ہیں اس کے بارے میں دریافت کریں گے، تو اللہ نے ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کرا دی، وہ ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے، چنانچہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا، میرا خیال تھا کہ میرے ساتھی گفتگو کا موقع مجھے ہی دیں گے اس لیے میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! ہماری طرف کچ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4695]
فوائد ومسائل:
1: بالخصوص فتنوں کے دنوں میں ضروری ہے کہ انسان علمائے راسخین سے رابطے میں رہے ان سے استفادہ کرکے ہی وہ اپنے ایمان وعمل کو محفوظ رکھ سکتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ اس سلسلے کی اولین کڑی ہیں۔
2: الولا ء والبراء ایک اہم ترین مسئلہ ہے،ہر مومن کے لئے اس سے آگاہی اور اس پر عمل ضروری ہے،یعنی اہل ایمان سے محبت اور اہل کفراور ملحدین سے بغض اور اعراض۔
3: ایمانیات کی تمامتر جزئیات تسلیم اور قبول کیے بغیر کوئی نیکی درجہ قبول نہیں پاسکتی،ان میں سے ایک اہم مسئلہ تقدیر بھی ہے۔
4:لازمی ہے کہ علم شریعت قوت اور شباب (جوانی) کے دنوں میں حاصل کیا جائے۔
طالب علم کا لباس انتہائی صاف ستھراہو اور وہ اپنے مشائخ سے از حد تواضع کا معاملہ رکھے۔
5:ایمان اعضائے باطنی اور اعضائے ظاہری دونوں عمل یعنی تصدیق بالقلب اور اقرار باللسان و اعمال صالحہ کا نام ہے جبکہ اسلام اعضائے ظاہری کے اعمال یعنی اقرارباللسان واعمال صالحہ کا نا م ہے۔
ایمان میں اسلام بھی شامل ہے مگر جہاں ان کی الگ الگ پہچان کرنا مقصود ہو وہاں اسلام کا اطلاق ظاہری اعمال پر اور ایمان کا اطلاق باطنی امور پر ہوتا ہے جن کو ظاہری اعمال خود بخود مستلزم ہوتے ہیں۔
6: صفت احسان یعنی بندے کایہ تصور ہوکہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے،ایمان اور اسلام کے کمال کی نشانی ہے۔
7: قیامت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں 8: اولادوں کا نافرمان ہونا اور بلند سے بلند عمارتوں کی تعمیر میں مقابلہ بالخصوص قرب قیامت کی علامات میں سے ہے۔
9: فرامین رسول ؐ یعنی حدیث وسنت شرعی حجت ہیں۔
رسول اللہ ؐ کے علاوہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی صاحب عظمت ہو،شریعت میں اس کے قول وفعل کی کوئی حیثیت نہیں جب تک الصادق والمصدوقؐ کی توثیق نہ ہو۔
جس طرح کہ جبریل امین ؑنے دین کی سب سے تفصیلات رسول اللہ ؐ کی زبان سے اداکروائیں۔
براہ راست کچھ نہیں کہا۔
۔
۔
۔
اور اگر بالفرض وہ کہہ بھی دیتے تو امت کے لئے یہ حجت نہ ہوتا۔
10:صحابہ کرام رضی اللہ کو آنے والے کا پتہ نہ تھا اس کا مطلب ہے کہ اولیا اللہ غیب نہیں جانتے۔
11: لفظ دین شریعت کے تمام ظاہری اور باطنی امور کو محیط ہے
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4695