سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
18. باب فِي ذَرَارِيِّ الْمُشْرِكِينَ
باب: کفار اور مشرکین کی اولاد کے انجام کا بیان۔
حدیث نمبر: 4712
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ. ح وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ، وَكَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمَذْحِجِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ الْمَعْنَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَرَارِيُّ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ:" هُمْ مِنْ آبَائِهِمْ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِلَا عَمَلٍ، قَالَ: اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَرَارِيُّ الْمُشْرِكِينَ، قَالَ: مِنْ آبَائِهِمْ، قُلْتُ: بِلَا عَمَلٍ، قَالَ: اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مومنوں کے بچوں کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور مشرکین کے بچے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے میں نے عرض یا بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16284)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/84) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال ان بچوں کے متعلق تھا جو قبل بلوغت انتقال کر گئے تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہی رہیں گے، اگرچہ ان سے کوئی کفر یا نیک عمل صادر نہ ہوا، لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اگر زندہ رہتے تو کیا کرتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 111  
´چھ قسم کے ملعون`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَرَارِيُّ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: «مِنْ آبَائِهِمْ» . فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِلَا عَمَلٍ؟ قَالَ: «اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ» . قُلْتُ فذاراري الْمُشْرِكِينَ؟ قَالَ: «مِنْ آبَائِهِمْ» . قُلْتُ: بِلَا عَمَلٍ؟ قَالَ: «اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! ایمان والوں کے بچوں کا (حکم) کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا حکم ان کے والدین کے ساتھ ہے۔ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! بغیر عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کو خوب علم ہے کہ انہوں نے (بالغ ہو کر) کیا اعمال کرنے تھے۔ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) میں نے عرض کیا، شرک کرنے والوں کے بچوں کا (حکم) کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا حکم ان کے والدین کے ساتھ ہے۔ میں نے (ازراہ تعجب) عرض کیا، بغیر عمل کے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کو خوب علم ہے کہ انہوں نے (بالغ ہو کر) کیا اعمال کرنے تھے۔ (ابوداؤد) . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 111]

تخریج:
[سنن ابي داود 4712]

تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند صحیح ہے۔
● بقیۃ بن الولید نے سماع مسلسل کی تصریح کر دی ہے، دیکھیے: [الشريعه الاجري ص 195] اور محمد بن حرب نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔ [سنن ابي داؤد: 4712]
● مسند أحمد [ج6 ص84 ح24545] میں اس کی دوسری سند بھی ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ اس حدیث میں بھی مسئلہ تقدیر بیان ہوا ہے۔ نیز دیکھئے: ماہنامہ الحدیث: [36 ص9]
➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان بلاعمل سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک بھی عمل ایمان میں سے ہے اور اقرار و تصدیق کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے۔
➌ کون کہاں جائے گا؟ سب اللہ جانتا ہے۔ ہر چیز اس کے علم میں ہے اور اسے ہی تقدیر کہتے ہیں۔
➍ اگر مسئلہ معلوم نہ ہو تو اہل ذکر (علماء) سے پوچھنا چاہئے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 111   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4712  
´کفار اور مشرکین کی اولاد کے انجام کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مومنوں کے بچوں کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور مشرکین کے بچے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے میں نے عرض یا بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4712]
فوائد ومسائل:
بچوں کا کیا انجام ہوگا؟ یہ قابل غور مسئلہ ہے۔
وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں، چاہے مسلمان کے گھر پیدا ہوں چاہے کا فر کے۔
(صحيح البخاري، كتاب التفسير، سورة الروم‘ باب (لاتبديل الخلق الله، حديث:٤٧٧٥) كفار اپنے بچوں کو اپنے دین کے مطابق ڈھال کر کافر بنا لیتے ہیں، اس باب کی احادیث٤٧١٤ اور٤٧١٦ سے یہ حقیقت واضح ہے۔
غیر مسلموں اور مشرکوں کے بچے سن تمیز سے پہلے فوت ہو جائیں اور ان کے والدین کا فر ہوں تو دنیا میں ان کا حکم کافروں کا ہو گا، انہیں نہ غسل دیا جائے گا نہ کفن دیا جائے گا، نہ جنازہ پڑھا جائے گا او ر نہ ہی انہیں مسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا، کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہی کافر ہیں اور آخرت میں ان کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے، صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جب مشرکوں کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ؐ نے فرمایا: (الله أعلم بما کانوا عاملین) (صحیح البخاري، القدر، باب الله أعلم بما کانوا عاملین، حدیث: 6597) اللہ تعالی ان بابت زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے؟ ان کے بارے میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن انہیں کوئی حکم دے کر ان کی آزمائش کرے گا اور اگر وہ اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت کرلیں گے تو اللہ تعالی انہیں جنت میں داخل کرے گا اور اگر وہ نافرمانی کریں گے تو پھر اللہ تعالی انہیں جہنم رسید کرے گا۔
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اہل فترہ (جن کے پاس انبیا کی دعوت نہ پہنچی ہوگی۔
)
کا قیامت کے دن امتحان ہو گا۔
اہل فترہ کی بابت سب سے زیادہ صحیح اور راجح قول یہی ہے، جسے شیخ الاسلام ان تیمیہ، امام بن قیم۔
فضیلہ الشیخ محمد بن صالح العثمین اور فضیلہ الشیخ عبدالعزیز عبداللہ بن باز ؒنے بھی اختیار کیا ہے، اسی طرح جو لوگ ان کے حکم میں ہوں گے مثلا مشرکوں کے بچے، ان کا بھی امتحان ہو گا کیو نکہ ارشاد باری تعالی ہے: (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا) کہ اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھجیں ہم عذاب نہیں دیا کرتے۔
(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، سنن ابوداود، کتاب الجہاد، حدیث:2521)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4712