سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
18. باب فِي ذَرَارِيِّ الْمُشْرِكِينَ
باب: کفار اور مشرکین کی اولاد کے انجام کا بیان۔
حدیث نمبر: 4716
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْهَالِ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ يُفَسِّرُ حَدِيثَ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، قَالَ:" هَذَا عِنْدَنَا حَيْثُ أَخَذَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْعَهْدَ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ حَيْثُ، قَالَ: أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى سورة الأعراف آية 172".
حجاج بن منہال کہتے کہ میں نے حماد بن سلمہ کو «كل مولود يولد على الفطرة» ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ۱؎ کی تفسیر کرتے سنا، آپ نے کہا: ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ نے ان سے اسی وقت لے لیا تھا، جب وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے، اللہ نے ان سے پوچھا تھا: «ألست بربكم قالوا بلى» کیا میں تمہارا رب (معبود) نہیں ہوں؟ تو انہوں نے کہا تھا: کیوں نہیں، ضرور ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18591) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: فطرت اسلام پر پیدا ہونے کی تاویل اس طرح بیان فرمائی کہ چونکہ میثاق الٰہی کے مطابق ہر ایک نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا تھا، لہٰذا اسی اقرار پر وہ پیدا ہوتا ہے، بعد میں لوگ اس کو یہودی، نصرانی، مجوسی یا مشرک بنا لیتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع