سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
21. باب فِي الرَّدِّ عَلَى الْجَهْمِيَّةِ
باب: جہمیہ کے رد کا بیان۔
حدیث نمبر: 4733
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَنْزِلُ رَبُّنَا عز وجل كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا، حَتَّى يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، فَيَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور کہتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے، میں اس کی پکار کو قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اسے معاف کر دوں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (1315)، (تحفة الأشراف: 13463، 15241) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: دونوں احادیث میں اللہ کی صفات کا ذکر ہے جن کا جہمیہ انکار کرتے ہیں، علماء سلف کا مسلک اس بارے میں یہ ہے کہ صفات باری تعالیٰ جس طرح قرآن وسنت میں وارد ہیں ان کو جوں کا توں باقی رکھا جائے نہ ان کا انکار کیا جائے، اور نہ ان کی تاویل کی جائے، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کی کتاب شرح حدیث النزول دیکھیے جو اس بارے میں دلائل سے پُر اور اپنے باب میں عدیم النظیر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 8  
´اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے لحاظ سے اپنے عرش پر مستوی ہے `
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر، فيقول: من يدعوني فاستجيب له، ومن يسالني فاعطيه، ومن يستغفرني فاغفر له . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر میں آسمان دینا پر نازل ہوتا ہے اور فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اسے دے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے گناہ معاف کروائے تاکہ میں اس کے گناہ معاف کر دوں؟ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 8]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1145، ومسلم 758، من حديث ما لك به . و من رواية يحيي وجاء فى الأصل «يَدْعُنِيْ» ]

تفقه:
➊ یہ حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 128/7، اور نظم المتناثر 206]
➋ اس پر ایمان لانا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر میں آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ اس سے صرف رحمت کا نزول مراد لینا اور نزول باری تعالیٰ کی تاویل کرنا باطل ہے۔
➌ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے لحاظ سے سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اور اس کا علم و قدرت ہر چیز کو محیط ہے۔
➍ جہمیہ (ایک سخت گمراہ فرقے) نے الله سبحانہ وتعالیٰ کو ہر جگہ (موجود بذاتہ) قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [تلبيس ابليس ص 30،اقسام اهل البدع] اس کفریہ عقیدے سے حلول لازم آتا ہے۔ عقيدة حلول کے باطل ہونے کے لئے دیکھئے: حافظ ابن تیمیہ کی کتاب ابطال وحدة الوجود اور ملا علی قاری حنفی کی کتاب الرد على القائلين بوحدة الوجود
➎ امام مالک نے فرمایا:
«الله عز وجل فى السماء وعلمه فى كل مكان، لا يخلو من علمه مكان»
الله تعالیٰ آسمان پر ہے اور اس کا علم ہر مکان پر (محيط) ہے۔ اس کے علم سے کوئی مکان خالی نہیں۔ [كتاب الشريعة لآجري ص 289 ح 652 وسنده حسن]
➏ احادیث صفات کے بارے میں امام اوزاعی، مالک، سفیان ثوری اور لیث بن سعد نے فرمایا:
انہیں بلا کیفیت روایت کرتے رہیں۔ [عقيدة السلف واصحاب الحديث للصابوني ص 56ح 90 رسندہ حسن، دوسرا نسخہ 248، 249]
➐ امام عبدالله بن المبارک رحمہ اللہ نے فرمایا:
«نعرف ربنا فوق سبع سمٰوات على العرش استويٰ، بائناً من خلقه ولا نقول كما قالت الجهمية: «إنه هاهنا» وأشار إلى الأرض»
ہم اپنے رب کو پہچانتے ہیں وہ سات آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہے، وہ اپنی مخلوق سے الگ ہے اور ہم جہمیہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ یہاں (زمین) پر ہے اور انھوں (امام عبدالله بن المبارک رحمہ اللہ) نے زمین کی طرف اشارہ کیا۔ [عقيدة السلف واصحاب الحديث للصابوني ص 186ح 28 رسنده صحيح، الرد على الجهمية للدارمي: 67، 162، والصفات للبيهقي: ص 427 دوسرا نسخه ص 538، السنة لعبد الله بن احمد: 216]
➑ امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا:
«إن الإعتصام بالسنة نجاة»
سنت کو مضبوطی سے پکڑنے میں نجات ہے۔ [حلية الاولياء لا نعيم الاصبهاني 369/3 وسنده صحيح]
➒ اس حدیث سے دعا کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے اور یہ کہ دعا توکل کے منافی نہیں بلکہ مطلوب ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 26   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6321  
´آدھی رات کے بعد صبح صادق سے پہلے دعا کرنے کی فضیلت`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَتَنَزَّلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُولُ:" مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ، مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، اس وقت جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے کہ میں اس کی بخشش کروں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدَّعَوَاتِ: 6321]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6321 کا باب: «بَابُ الدُّعَاءِ نِصْفَ اللَّيْلِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں «نصف الليل» یعنی آدھی رات کا ذکر فرمایا ہے جبکہ تحت الباب حدیث میں آدھی رات کا ذکر نہیں ہے بلکہ «ثلث الليل» تہائی رات کا ذکر ہے، لہذا اس اعتبار سے باب اور حدیث میں مناسبت نہیں بنتی، اس کا جواب دیتے ہوئے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و الذي يظهر لي أن البخاري جرى على عادته فأشار إلى الرواية التي وردت بلفظ النصف، فقد أخرجه أحمد عن يزيد بن هارون عن محمد بن عمر، و عن أبى سلمة عن أبى هريرة بلفظ ينزل الله إلى السماء الدنيا نصف الليل الأخير أو ثلث الليل الآخر (2)
میرے نزدیک جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق روایت کے دوسری طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جس میں «نصف الليل» کا ذکر ہے، جسے احمد نے بطریق یزید بن ہارون، عن محمد بن عمر، عن ابی سلمۃ، عن ابی ہریرۃ سے نکالا ہے کہ اللہ تعالی دنیائے آسمان کی طرف نصف اللیل کے آخر یا ثلث اللیل کے آخر تک نازل ہوتا ہے۔
ابن بطال رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مطابقت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«ترجم بنصف الليل وساق فى الحديث أن التنزل يقع ثلث الليل، لكن المصنف عول على ما فى الآية وهو قوله تعالى: ﴿قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا o نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ﴾ [المزمل: 2-3] فأخذ الترجمة من دليل القرآن.» (1)
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے باب نصف رات کا قائم فرمایا ہے جبکہ حدیث جو تحت الباب مذکور ہے وہ ثلث اللیل پر دال ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے (باب میں) اس آیت مبارکہ کو مدنظر رکھا: « ﴿قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا o نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ﴾ » [المزمل: 2-3] تو گویا ترجمۃ الباب کی دلیل قرآن سے اخذ فرمائی۔ آیت مبارکہ میں ذکر ہے نصف رات (اللہ تعالی کی) وقت تنزیل کا، پر اس کے دخول سے قبل محافظت پر دال ہے تاکہ وقت قبولیت آئے تو بندہ پہلے سے اس کے انتظار میں ہو اور اس کے لقاء کے لیے مستعد ہو۔
ابن الملقن رحمہ اللہ بھی قریب قریب یہی تطبیق دیتے ہیں، چنانچہ آپ رقمطراز ہیں:
«ان قلت: كيف ترجم الدعا نصف الليل و ذكر الحديث أن التنزل فى ثلث الليل الآخر؟ قيل إنما أخذ ذالك من قوله تعالي: ﴿قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ [المزمل: 2] فالترجمة تقوم من دليل القرآن و الحديث يدل على أن الإجابة ثلث الليل.» (2)
امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر آپ کہیں کہ باب نصف اللیل پر قائم فرمایا اور حدیث ثلث اللیل کی (تو اس میں تطبیق کیا ہوگی؟) تو میں (کرمانی رحمہ اللہ) کہتا ہوں جب ثلث باقی رہ جاتا ہے تو یہ ثلث سے قبل ہی ہوتا ہے، پس یہی مقصود ہے «من النصف» سے۔(3)
امام کرمانی رحمہ اللہ کے مطابق جب رات کا تیسرا حصہ شروع ہونے والا ہوتا ہے تو وہ نصف حصہ ہوتا ہے، کیوں کہ ابھی وہ تہائی حصہ شروع نہیں ہوا ہوتا۔
انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«ترجم المصنف بالنصف، و أخرج له حديث الثلث، إشارة إلى أن الحديث فى النصف أيضًا، ثم الحافظ تصدى إلى الترجيح، و الوجه عندي، أن للنزول أنحاءً فنحو من على النصف، و نحو على الثلثين، و نحو على الثلث الأخير و قد علمت أن هذا النزول عبارة عن تعلق الرحمة غير المتكلمين، و الذي تبين لديّ أنه نحو من تجلي الرب عز برهانه، و جل سلطانه.» (1)
یعنی مصنف رحمہ اللہ نے نصف کے لفظ کے ساتھ ترجمہ قائم فرمایا ہے، جب کہ حدیث جو نقل فرمائی ہے اس میں «ثلث» کا ذکر ہے، یہ اشارہ مقصود ہے کہ نصف میں بھی حدیث موجود ہے، کہتے ہیں کہ حافظ ترجیح میں پڑے ہیں، میرے نزدیک ترجیح اس طرح سے ہے کہ کئی انحاء ہیں، ایک نحو نصف پر، ایک ثلثین پر، ایک نحو آخری ثلث پر ہے، اور تم جانتے ہو، یہ نزول متکلمین کے نزدیک تعلق رحمت سے عبارت ہے، میرے نزدیک متبین یہ ہے کہ یہ ایک طرح کی تجلی ہے۔
ان گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے آیت قرآن مجید پر اور تحت الباب جس حدیث کو پیش فرمایا ہے اس میں «ثلث الليل» کا ذکر ہے۔ دراصل اس جگہ پر امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جسے دارقطنی نے نکالا ہے، اس میں شطر اللیل کا ذکر ہے۔ مزید ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآن کی آیت کو لیا جس میں «نصفه» کا ذکر ہے، یعنی «قم الليل إلا نصفه» اور اس کی متابعت سے باب میں نصف کا لفظ ذکر فرمایا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 209   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1366  
´رات کا کون سا وقت (عبادت کے لیے) سب سے اچھا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس وقت اخیر کی تہائی رات رہ جاتی ہے تو ہمارا رب جو کہ برکت والا اور بلند ہے، ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور فرماتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو دوں؟ کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اسے بخش دوں؟ اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتا ہے، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اخیر رات میں عبادت کرنا بہ نسبت اول رات کے پسند کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1366]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث میں رات کے آخری حصے میں نماز اور دعا کی فضیلت کا بیان ہے۔

(2)
اللہ کی رحمت اتنی عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو اپنی ذات سے مانگنے کو کہتا ہے۔

(3)
اللہ تعالیٰ کا پہلے آسمان پر تشریف لانا اسی طرح اللہ کی صفت ہے۔
جس طرح اس کاعرش پر تشریف فرما ہونا اور کلام کرنا، ان صفات پر ایمان لانا چاہیے انکار یا تاویل کرنا جائز نہیں البتہ اللہ تعالیٰ کی صفات کومخلوق کی صفات جیسی نہیں سمجھناچاہیے، ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نزول فرماتا ہے۔
جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1366   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 446  
´اللہ عزوجل کے ہر رات آسمان دنیا پر اترنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہر رات کو جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر جاتا ہے ۱؎ آسمان دنیا پر اترتا ہے ۲؎ اور کہتا ہے: میں بادشاہ ہوں، کون ہے جو مجھے پکارے تاکہ میں اس کی پکار سنوں، کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تاکہ میں اسے معاف کر دوں۔ وہ برابر اسی طرح فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر روشن ہو جاتی ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 446]
اردو حاشہ:
1؎:
آگے مؤلف بیان کر رہے ہیں:
صحیح بات یہ ہے کہ ایک تہائی رات گزرنے پر نہیں،
بلکہ ایک تہائی رات باقی رہ جانے پر اللہ نزول فرماتے ہیں۔
(مؤلف کے سوا دیگر کے نزدیک ((الْآخِرُ)) ہی ہے)

2؎:
اس سے اللہ عزوجل کا جیسے اُس کی ذاتِ اقدس کو لائق ہے آسمان دنیا پر ہر رات کو نزول فرمانا ثابت ہوتا ہے،
اور حقیقی اہل السنہ والجماعہ،
سلف صالحین اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفات میں تاویل نہیں کیا کرتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 446   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4733  
´جہمیہ کے رد کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور کہتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے، میں اس کی پکار کو قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اسے معاف کر دوں ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4733]
فوائد ومسائل:
1: اللہ عزوجل کا آسمان دنیا پر تشریف لانا حق ہے، اس کا ندا دینا بھی حق ہے اور اس کی ان صفات کی حقیقت ویسی ہی ہے جو اس کی شان عظمت وجلال کے لائق ہے، ان پر ایمان رکھنا واجب ان کا انکار کفر، ان کی تاویل اور ان صفات کی حقیقت کی ٹوہ لگانا یا اس کا سوال کرنا بدعت ہے۔

2: فرض نمازوں کے بعد نوافل کے لئے رات کا آخری پہر اللہ سے لو لگانے اور دعا کی قبولیت کا انتہائی شاندار وقت ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4733   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1315  
´رات کا کون سا حصہ عبادت کے لیے زیادہ بہتر ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب ہر رات جس وقت رات کا آخری ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، آسمان دنیا پر اترتا ہے ۱؎، پھر فرماتا ہے: کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں؟ کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں؟۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1315]
1315. اردو حاشیہ: فوائد ومسائل:
➊ معلوم ہوا کہ رات کا آخری تیسرا پہر بہت زیادہ افضل ہے۔
➋ ایسی آیات قرآن اور احادیث صحیحہ کو، جن میں اللہ عزوجل کی اس قسم کی صفات (مثلاً) اترنا، آنا، کلام کرنا، ہنسنا، تعجب کرنا اور عرش پر بیٹھنا وغیرہ کا ذکر ہے، محققین اہل السنۃ والجماعۃ (یعنی اہل الحدیث) ان کے ظاہر پرمحمول کرتے ہیں، وہ کسی تاویل، تشبیہ یا تعطیل و تحریف کے قائل نہیں اور نہ ان کی حقیقت اور کنہ ہی کے درپے ہوتےہیں۔ یہ صفات ایسی ہی ہیں جیسا کہ اس کی ذات اقدس کے شایان شان ہیں۔ جس طرح اللہ عزوجل کی ذات دیگر اور ذوات کے مشابہ نہیں، اسی طرح اس کی صفات بھی کسی سے مشابہ نہیں۔ ﴿لَيسَ كَمِثلِهِ شَىءٌ ۖ وَهُوَ السَّميعُ البَصيرُ‌ ﴾ سورۃ شوریٰ:11، جو لوگ مندرجہ بالاحدیث کی تاویل یوں کردیتے ہیں کہ اللہ کی رحمت اترتی ہے یا اس کا امر اترتا ہے وہ ذار غور کریں کہ یہ جملے:کون ہے جو مجھ سے دعا کرے، میں قبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سےمانگے، میں اس کو دوں۔ کون ہے جو مجھ سے معافی چاہے، میں اس کو معاف کروں۔ کس طرح رحمت یا امر پر منطبق ہوسکتے ہیں۔ یہ بلاشبہ رب کبریاء ہی سے متعلق ہیں، نیزرحمت کا اتر کر آسمان دنیا تک رہ جانا مخلوق کے لیے کیونکر نفع آور ہے۔ حالانکہ وہ خود فرماتا ہے: ﴿وَرَ‌حمَتى وَسِعَت كُلَّ شَىءٍ﴾ سور الاعراف:156، الغرض ظاہر قرآن و حدیث پر ایمان اور اس کے مطابق عمل اور اسوۂ رسول اللہﷺ کا اتباع اورسبیل المومنین (صحابہ کرام) اختیار کرنا ہی ایک مسلمان کے لیے باعث نجات و تقرب ہے (فوائد ازعلامہ وحیدالزمان)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1315