صحيح البخاري
كِتَاب الْعُمْرَةِ -- کتاب: عمرہ کے مسائل کا بیان
10. بَابُ يَفْعَلُ فِي الْعُمْرَةِ مَا يَفْعَلُ فِي الْحَجِّ:
باب: عمرہ میں ان ہی کاموں کا پرہیز ہے جن سے حج میں پرہیز ہے۔
حدیث نمبر: 1789
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ , يَعْنِي عَنْ أَبِيهِ،" أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْجِعْرَانَةِ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ وَعَلَيْهِ أَثَرُ الْخَلُوقِ أَوْ قَالَ: صُفْرَةٌ، فَقَالَ: كَيْفَ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصْنَعَ فِي عُمْرَتِي؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسُتِرَ بِثَوْبٍ وَوَدِدْتُ أَنِّي قَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، فَقَالَ عُمَرُ: تَعَالَ أَيَسُرُّكَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْوَحْيَ، قُلْتُ: نَعَمْ، فَرَفَعَ طَرَفَ الثَّوْبِ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ لَهُ غَطِيطٌ , وَأَحْسِبُهُ قَالَ: كَغَطِيطِ الْبَكْرِ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ عَنِ الْعُمْرَةِ؟ اخْلَعْ عَنْكَ الْجُبَّةَ، وَاغْسِلْ أَثَرَ الْخَلُوقِ عَنْكَ، وَأَنْقِ الصُّفْرَةَ، وَاصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ كَمَا تَصْنَعُ فِي حَجِّكَ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے عطا بن ابی رباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا جبہ پہنے ہوئے اور اس پر خلوق یا زردی کا نشان تھا۔ اس نے پوچھا مجھے اپنے عمرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کپڑا ڈال دیا گیا، میری بڑی آرزو تھی کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہو تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہاں آؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہو رہی ہو، اس وقت تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے آرزو مند ہو؟ میں نے کہا ہاں! انہوں نے کپڑے کا کنارہ اٹھایا اور میں نے اس میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ زور زور سے خراٹے لے رہے تھے، میرا خیال ہے کہ انہوں نے بیان کیا جیسے اونٹ کے سانس کی آواز ہوتی ہے پھر جب وحی اترنی بند ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پوچھنے والا کہاں ہے جو عمرہ کے بارے میں پوچھتا تھا؟ اپنا جبہ اتار دے، خلوق کے اثر کو دھو ڈال اور (زعفران کی) زردی صاف کر لے اور جس طرح حج میں کرتے ہو اسی طرح اس میں بھی کرو۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4985  
´قرآن مجید قریش اور عرب کے محاورہ میں نازل ہوا`
«. . . أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّ يَعْلَى، كَانَ يَقُولُ: لَيْتَنِي أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، فَلَمَّا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ وعَلَيْهِ ثَوْبٌ قَدْ أَظَلَّ عَلَيْهِ وَمَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مُتَضَمِّخٌ بِطِيبٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ أَحْرَمَ فِي جُبَّةٍ بَعْدَ مَا تَضَمَّخَ بِطِيبٍ؟ فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً، فَجَاءَهُ الْوَحْيُ، فَأَشَارَ عُمَرُ إِلَى يَعْلَى أَنْ تَعَالَ، فَجَاءَ يَعْلَى، فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ، فَإِذَا هُوَ مُحْمَرُّ الْوَجْهِ يَغِطُّ كَذَلِكَ سَاعَةً، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَقَالَ: أَيْنَ الَّذِي يَسْأَلُنِي عَنِ الْعُمْرَةِ آنِفًا؟ فَالْتُمِسَ الرَّجُلُ، فَجِيءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَمَّا الطِّيبُ الَّذِي بِكَ فَاغْسِلْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَمَّا الْجُبَّةُ فَانْزِعْهَا، ثُمَّ اصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ كَمَا تَصْنَعُ فِي حَجِّكَ . . .»
. . . مجھے صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے خبر دی کہ (میرے والد) یعلیٰ کہا کرتے تھے کہ کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی ہو۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کپڑے سے سایہ کر دیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چند صحابہ موجود تھے کہ ایک شخص کے بارے میں کیا فتویٰ ہے۔ جس نے خوشبو میں بسا ہوا ایک جبہ پہن کر احرام باندھا ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنا شروع ہو گئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یعلیٰ کو اشارہ سے بلایا۔ یعلیٰ آئے اور اپنا سر (اس کپڑے کے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سایہ کیا گیا تھا) اندر کر لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اس وقت سرخ ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے سانس لے رہے تھے، تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی۔ پھر یہ کیفیت دور ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ جس نے ابھی مجھ سے عمرہ کے متعلق فتویٰ پوچھا تھا وہ کہاں ہے؟ اس شخص کو تلاش کر کے آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جو خوشبو تمہارے بدن یا کپڑے پر لگی ہوئی ہے اس کو تین مرتبہ دھو لو اور جبہ کو اتار دو پھر عمرہ میں بھی اسی طرح کرو جس طرح حج میں کرتے ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ: 4985]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4985 کا باب: «بَابُ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ وَالْعَرَبِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، کیوں ترجمۃ الباب میں قرآن مجید کا قریشی اور عربی زبان میں نازل ہونے کی وضاحت کی جا رہی ہے، جس حدیث کو پیش کیا گیا ہے اس کا تعلق قرآن مجید کے نزول سے نہیں ہے۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بین طور پر یہ اقرار کیا کہ:
«قد خفي دخول هذا الحديث فى هذا الباب على كثير من الائمة حتي قال ابن كثير فى تفسيره ذكر هذا الحديث فى الترجمة التى قبل هذه اظهر وابين» [فتح الباري لابن حجر: 9/10]
یقیناً کئی ائمہ پر یہ بات مخفی رہی کہ یہاں پر ترجمۃ الباب سے حدیث کی کیا مناسبت ہو گی یہاں تک کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں کہا کہ، اس حدیث کا تعلق اس باب کے ساتھ ہے جو اس سے قبل ہے، یہ زیادہ ظاہر اور واضح ہے۔

بعضے علماء نے یہاں تک کہا کہ اس حدیث کو درج کرنے میں اس جگہ پر کا تب سے غلطی ہو گئی ہے، کیوں کہ اس حدیث کا تعلق سابقہ باب سے ہے۔ لیکن جب غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث کو «نزل القرآن بلسان القريش العرب» میں لانے سے امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ کا بڑا مقصد ہے، جس کو وہ تحت الباب اور ترجمۃ الباب کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں اور اسی حل میں ترجمۃ الباب اور تحت الباب جو حدیث سیدنا لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے اسی میں مناسبت موجود ہے۔

ابن المنیر رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«كان ادخال هذا الحديث فى الباب الذى قبله اليق، لكن لعله قصة التنبيه على ان الوحي بالقرآن والسنة كان على صفة واحدة، وبلسان واحد .» [المتوري على ابواب البخاري: ص 387]
اس حدیث کا تعلق پچھلے باب سے ہے، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا ارادہ اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کی وحی چاہے قرآن مجید کی ہو یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو، ان دونوں کا تعلق زبان کے اعتبار سے ایک ہی صفت کے ساتھ ہے۔
ابن منیر رحمہ اللہ کی وضاحت سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید اور حدیث رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں کا تعلق زبان عربی سے ہے اور صفت کے اعتبار سے دونوں ایک ہی ہیں، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کا تعلق ایک شئی کے ساتھ ملحق ہے اور وہ شئی وحی ہے، جو من جانب اللہ ہوا کرتی ہے۔

ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مناسبة الحديث للترجمة: ان الوحي كله متلوا كان او غير متلو، انما نزل بلسان العرب» [شرح ابن بطال 218/10]
حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ وحی کا مکمل دارومدار متلو یا غیر متلو (حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) پر ہے اور یقیناً یہ دونوں وحی عربی زبان میں نازل ہوئیں۔

علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس حدیث کو تحت الباب میں لانے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ اس بات پر تنبیہ کرنا کہ قرآن اور حدیث ان دونوں کا تعلق وحی کے ساتھ وابستہ ہے، جو کہ اس ایک ہی زبان میں نازل ہوئے۔ [عمدة القاري للعيني: 10/20]

امام قسطلانی رحمہ اللہ نے بھی قریب قریب یہی مناسبت دی ہے۔ [ارشاد الساري: 8/9]

امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«ومناسبة حديثه للباب الاشارة الي ان القرآن نزل بلسان العرب مطلقاً قريش وغيرهم، لان السائل من غير قريش، وقد نزل الوحي فى جواب سؤاله بما يفهمه .» [التوشيح شرح الجامع الصحيح: 3199/7]
ترجمۃ الباب اور حدیث کی مناسبت اس اشارہ میں ہے کہ قرآن مجید مطلق طور پر عربی اور قریش وغیرھم کی زبان میں نازل ہوا، کیوں کہ سائل (جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا) وہ قریشی نہ تھا اور یقیناً وحی کے ذریعے اسے سوال کا جواب اس طرح دیا گیا کہ وہ (جواب) کو سمجھے۔
امام سیوطی رحمہ اللہ کے جواب سے مناسبت کچھ یوں ہوئی کہ قرآن مجید جس طرح قریشی زبان اور اس کے علاوہ دوسرے عرب لہجے کی زبان میں نازل ہوا ہے، بعین حدیث وحی کے ذریعے بھی غیر قریشی زبان کے ذریعے لوگوں کے سوالات کے جوابات نازل کئے جاتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر۔

مزید اگر غور کیا جائے تو ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت دوسرے پہلو سے بھی بنتی ہے، سیدنا صفوان بن یعلی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی کیفیت کا ذکر ہے اور یہ کیفیت وحی کے نزول کی طرف دلالت کرتی ہے، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جس طرح قرآن نازل ہوتا تھا، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حدیث بھی نازل ہوا کرتی تھی، اگرچہ وحی کی مختلف کیفیات ہیں، تاہم ان تمام وحی کا تعلق من جانب اللہ ہوا کرتا ہے، چاہے وہ قرآنی وحی ہو، یا غیر قرآنی، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 73   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1819  
´آدمی سلے ہوئے کپڑے میں احرام باندھ لے تو اس کے حکم کا بیان۔`
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ جعرانہ میں تھے، اس کے بدن پر خوشبو یا زردی کا نشان تھا اور وہ جبہ پہنے ہوئے تھا، پوچھا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کس طرح عمرہ کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی، جب وحی اتر چکی تو آپ نے فرمایا: عمرے کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے؟ فرمایا: خلوق کا نشان، یا زردی کا نشان دھو ڈالو، جبہ اتار دو، اور عمرے میں وہ سب کرو جو حج میں کرتے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1819]
1819. اردو حاشیہ:
➊ جعرانہ جیم کےکسرہ اورعین کےسکون کےساتھ یاجیم اور عین دونوں کے کسرہ اور راء مشدد کےساتھ۔مکہ سے مدینہ آنے والےراستے سے دائیں جانب کچھ دور ہٹ کر ایک منزل کا نام ہے۔یہاں آپ نے حنین کا مال غنیمت تقسیم فرمایت تھا یہیں سے احرام باندھ کر ایک عمرہ کیا تھا۔
➋ احرام باندھتے وقت خوشبو لگانا جائز ہے خواہ بعدازاں اس کا اثر بھی باقی رہے۔مگر زعفران اورز ردرنگ یک خوشبو عام حالات میں بھی ممنوع ہے تو احرام میں احرم میں زیادہ ہی منع ہے۔
➌ مرد کےلیے سلےہوئے لباس میں احرام نہیں صرف دو چادریں ہونی چاہئیں۔
➍ لباس اتارتے ہوئے یا اتفاقاً سر پر کپڑا آپڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
➎ حج اور عمرے کے احرم کے احکام ایک ہی ہیں۔مزید یہ بھی ثابت ہوا کہ ممنوعات سے بچنا بھی ایک عمل ہوتا ہے۔
➏ شریعت سراسر منزل من اللہ اور وحی شدہ ہے۔ <قرآن> ﴿ وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ* إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ﴾ (سورة النجم:3، 4)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1819   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1789  
1789. حضرت یعلیٰ بن امیہ ؓ سے روایت ہے، جب نبی کریم ﷺ جعرانہ میں تشریف فر تھے تو ایک آدمی آپ کےپاس آیا۔ اس نے ایسا جبہ پہن رکھا تھا جس پر خلوق یا زردی کے نشانات تھے۔ اس نے عرض کیا: آپ مجھے عمرہ کرنے کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر وحی نازل فرمائی۔ اس دوران میں آپ کو کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔ میری خواہش تھی کہ میں نبی کریم ﷺ پر نزول وحی کی کیفیت دیکھوں۔ حضرت عمر رضی ؓ نے فرمایا: آؤ، کیاتم نبی کریم ﷺ پر نزول وحی کی کیفیت دیکھنا چاہتے ہو؟میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ انھوں نے کپڑے کا کنارہ اٹھایا تو میں نے آپ ﷺ کو بایں حالت دیکھا کہ آپ سے خراٹے بھرنے کی آواز آرہی تھی۔ یہ آواز اونٹ کے بلبلانے کی طرح تھی۔ جب آپ سے یہ کیفیت زائل ہوئی تو آپ نے فرمایا: عمرے کے متعلق سوال کرنے والاآدمی کہاں ہے؟ (اسے فرمایا:) اپنا جبہ اتار دو اور اپنے جسم سے خوشبو کے اثرات دھو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1789]
حدیث حاشیہ:
(1)
وقوف اور رمی کے علاوہ عمرہ کرتے وقت وہی کام کیے جائیں جو حج میں کیے جاتے ہیں، نیز عمرہ کرتے وقت ان کاموں سے پرہیز کرو جو حج میں نہیں کیے جاتے۔
(2)
عمرے کے چار ارکان ہیں:
احرام، طواف، سعی اور آخر میں حلق یا تقصیر۔
(3)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سائل قبل ازیں احکام حج سے واقف تھا۔
زمانۂ جاہلیت میں لوگ حج کے لیے خلوق استعمال کرتے تھے اور یہ سہولتیں انہیں عمرے میں بھی حاصل تھیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے دوران عمرہ میں ہر قسم کی خوشبو استعمال کرنے سے منع فرمایا بلکہ اگر پہلے سے لگی ہوئی تھی تو اسے دھونے کا حکم دیا۔
(عمدةالقاري: 426/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1789