سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
8. باب فِي حُسْنِ الْخُلُقِ
باب: خوش اخلاقی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4798
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي الْإِسْكَنْدَرَانِيَّ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ الْمُطَّلِبِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: مومن اپنی خوش اخلاقی سے روزے دار اور رات کو قیام کرنے والے کا درجہ پا لیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 17666)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/64، 90، 133، 187) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4798  
´خوش اخلاقی کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: مومن اپنی خوش اخلاقی سے روزے دار اور رات کو قیام کرنے والے کا درجہ پا لیتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4798]
فوائد ومسائل:
حسنِ خلق سے مراد وہی عادات ہیں جن کا اعتبار شریعت اسلامیہ نے کیا ہے اور عرف میں ان کو عمدہ سمجھا جاتا ہے۔
اس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
ایسا حسنِ خلق جو حقوق اللہ کی ادائیگی سے عاری ہو معتبر نہیں۔
یا اگر کوئی حقوق اللہ تو ادا کرتا ہو، مگر حقوق العباد میں افراط و تفریط کا شکار ہو تو بھی کسی طرح مقبول و ممدوح نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4798