سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
10. باب فِي كَرَاهِيَةِ التَّمَادُحِ
باب: بے جا تعریف اور مدح سرائی کی برائی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4806
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا أَبُو مَسْلَمَةَ سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، قَالَ: قَالَ أَبِي:" انْطَلَقْتُ فِي وَفْدِ بَنِي عَامِرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: أَنْتَ سَيِّدُنَا، فَقَالَ: السَّيِّدُ اللَّهُ، قُلْنَا: وَأَفْضَلُنَا فَضْلًا وَأَعْظَمُنَا طَوْلًا، فَقَالَ: قُولُوا بِقَوْلِكُمْ أَوْ بَعْضِ قَوْلِكُمْ، وَلَا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ".
مطرف کے والد عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میں بنی عامر کے وفد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، تو ہم نے عرض کیا: آپ ہمارے سید، آپ نے فرمایا: سید تو اللہ تعالیٰ ہے ۱؎ ہم نے عرض کیا: اور آپ ہم سب میں درجے میں افضل ہیں اور دوستوں کو نوازنے اور دشمنوں پر فائق ہونے میں سب سے عظیم ہیں، آپ نے فرمایا: جو کہتے ہو کہو، یا اس میں سے کچھ کہو، (البتہ) شیطان تمہیں میرے سلسلے میں جری نہ کر دے (کہ تم ایسے کلمات کہہ بیٹھو جو میرے لیے زیبا نہ ہو)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 5349)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/24، 25) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ وہی اس لفظ کا حقیقی مستحق ہے، اور حقیقی معنیٰ میں سید اللہ ہی ہے، اور یہ مجازی اضافی سیادت جو افراد انسانی کے ساتھ مخصوص ہے منافی نہیں، حدیث میں ہے «أنا سيد ولد آدم ولا فخر» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4806  
´بے جا تعریف اور مدح سرائی کی برائی کا بیان۔`
مطرف کے والد عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میں بنی عامر کے وفد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، تو ہم نے عرض کیا: آپ ہمارے سید، آپ نے فرمایا: سید تو اللہ تعالیٰ ہے ۱؎ ہم نے عرض کیا: اور آپ ہم سب میں درجے میں افضل ہیں اور دوستوں کو نوازنے اور دشمنوں پر فائق ہونے میں سب سے عظیم ہیں، آپ نے فرمایا: جو کہتے ہو کہو، یا اس میں سے کچھ کہو، (البتہ) شیطان تمہیں میرے سلسلے میں جری نہ کر دے (کہ تم ایسے کلمات کہہ بیٹھو جو میرے لیے زیبا نہ ہو)۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4806]
فوائد ومسائل:
لفظ السید اپنے حقیقی معانی میں اللہ عزوجل کے لیئے ہی زیبا ہے، تاہم مجازی طور پر رسول اللہﷺ نے اپنے لیے استعمال فرمایا اور خبر دی ہے میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور مجھے اس پر کوئی ناز نہیں۔
(سنن ابنِ ماجة، الذھد، حدیث: 4308) اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہمارے سید ہیں اور انھوں نے ہمارے سید حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کیا۔
(صحیح البخاري، فضائل النبي ﷺ، حدیث:3754) معلوم ہوا کہ اصحابِ علم و فضل کے لیئے مجازََا یہ لفط استعمال ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ درود شریف کے الفاظ میں سیدنا کا لفظ کسی صحیح روایت میں ثابت نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4806