سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
19. باب مَنْ يُؤْمَرُ أَنْ يُجَالَسَ
باب: کن لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چاہئے؟
حدیث نمبر: 4832
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ غَيْلَانَ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَوْ عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ".
ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کے سوا کسی کو ساتھی نہ بناؤ ۱؎، اور تمہارا کھانا سوائے پرہیزگار کے کوئی اور نہ کھائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الزہد 55 (2395)، (تحفة الأشراف: 4399)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/38) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس میں کفار و منافقین کی مصاحبت سے ممانعت ہے کیونکہ ان کی مصاحبت دین کے لئے ضرر رساں ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2395  
´مومن کی صحبت اختیار کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مومن کے سوا کسی کی صحبت اختیار نہ کرو، اور تمہارا کھانا صرف متقی ہی کھائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2395]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں اشارہ اس طرف ہے کہ ایک مسلمان دنیا میں رہتے ہوئے اچھے اورنیک لوگوں کی صحبت اختیارکرے،
یہاں تک کہ کھانے کی دعوت دیتے وقت ایسے لوگوں کا انتخاب کرے جومتقی وپرہیزگارہوں،
کیونکہ دعوت سے آپسی الفت ومحبت میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے کوشش یہ ہوکہ الف ومحبت کسی پرہیزگارشخص سے ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2395   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4832  
´کن لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چاہئے؟`
ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کے سوا کسی کو ساتھی نہ بناؤ ۱؎، اور تمہارا کھانا سوائے پرہیزگار کے کوئی اور نہ کھائے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4832]
فوائد ومسائل:
1) فارسی میں کہتے ہیں: صحبت صا لح ترا صالح کند صحبت طالح ترا طالح کند۔
صحبت اور مجلس سے انسان اپنے ساتھی کی عادات اور رنگ ڈھنگ اختیار کرلیتا ہے اور دھیرے دھیرے اس کی محبت بھی دل میں گھر کر جاتی ہے اور معا ملہ دین اور عقیدے تک جا پہنچتا ہے، اس لیے صاحبِ ایمان کے علاوہ فاسق و فاجر کی صحبت سے گریز کرنا واجب ہے۔

2) صدقات و ہدایات میں اولیت اہلِ ایمان اور اہلِ تقوٰی کو حاصل ہے، دیگر لوگ دوسرے درجے پر ہیں اور ان سے احسان کرنے میں بھی اجر ہے۔
جیسے کہ ارشادِ باری تعالی ہے: (وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا) اہلِ ایمان اللہ کی محبت کی بنا پر مسکینوںِ یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔
اور قیدی ہر طرح کے لوگ ہو سکتے ہیں۔
مسلمان، فاسق، فاجر اور کافر۔
اسی طرح یتامٰی اور مساکین کا معاملہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4832