صحيح البخاري
كِتَاب الْعُمْرَةِ -- کتاب: عمرہ کے مسائل کا بیان
11. بَابُ مَتَى يَحِلُّ الْمُعْتَمِرُ:
باب: عمرہ کرنے والا احرام سے کب نکلتا ہے؟
حدیث نمبر: 1796
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ كَانَ يَسْمَعُ أَسْمَاءَ، تَقُولُ: كُلَّمَا مَرَّتْ بِالحَجُونِ صَلَّى اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مُحَمَّدٍ، لَقَدْ نَزَلْنَا مَعَهُ هَا هُنَا وَنَحْنُ يَوْمَئِذٍ خِفَافٌ قَلِيلٌ ظَهْرُنَا قَلِيلَةٌ أَزْوَادُنَا، فَاعْتَمَرْتُ أَنَا وَأُخْتِي عَائِشَةُ وَالزُّبَيْرُ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَلَمَّا مَسَحْنَا البيت أَحْلَلْنَا، ثُمَّ أَهْلَلْنَا مِنَ الْعَشِيِّ بِالْحَجِّ".
ہم سے احمد بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، انہیں ابوالاسود نے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے غلام عبداللہ نے ان سے بیان کیا، انہوں نے اسماء رضی اللہ عنہا سے سنا تھا، وہ جب بھی حجون پہاڑ سے ہو کر گزرتیں تو یہ کہتیں رحمتیں نازل ہوں اللہ کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہیں قیام کیا تھا، ان دنوں ہمارے (سامان) بہت ہلکے پھلکے تھے، سواریاں اور زاد راہ کی بھی کمی تھی، میں نے، میری بہن عائشہ رضی اللہ عنہا نے، زبیر اور فلاں فلاں رضی اللہ عنہم نے عمرہ کیا اور جب بیت اللہ کا طواف کر چکے تو (صفا اور مروہ کی سعی کے بعد) ہم حلال ہو گئے، حج کا احرام ہم نے شام کو باندھا تھا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1796  
1796. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، وہ جب بھی مقام حجون سے گزرتیں توفرماتیں اللہ تعالیٰ اپنے رسول حضرت محمد ﷺ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے!بے شک ہم آپ کے ہمراہ اس مقام پر اترے تھے۔ ان دنوں ہم ہلکی پھلکی تھیں۔ ہماری سواریاں بھی کم اور زادراہ بھی تھوڑا تھا میں میری ہمشیرہ عائشہ ؓ حضرت زبیر اور فلاں فلاں شخص (ﷺ) نے عمرہ کیا۔ ہم نے کعبہ کا طواف کرکے احرام کھول دیا پھر ہم نے دوسرے وقت حج کا احرام باندھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1796]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ ہم نے کعبہ کا طواف کر کے احرام کھول دیا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے صفا اور مروہ کی سعی نہیں کی تھی۔
اختصار کے پیش نظر اس کا ذکر حذف کر دیا گیا ہے۔
مفصل حدیث میں بیت اللہ کے طواف کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا بھی ذکر ہے۔
اس حدیث میں ان امور کا ذکر نہ کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہیں ترک کر دیا گیا۔
(فتح الباري780/3)
(2)
اس روایت کو جب صفیہ بنت شیبہ نے بیان کیا ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت زبیر ؓ کے پاس قربانی تھی اور وہ بیت اللہ کے طواف کے بعد حلال نہیں ہوئے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زبیر عمرہ کرنے کے بعد حلال ہو گئے تھے۔
امام بخاری ؒ کے نزدیک عبداللہ مولیٰ اسماء کی روایت راجح ہے۔
عروہ بن زبیر نے بھی اپنی والدہ اسماء سے اسی طرح نقل کیا ہے، اس لیے راجح یہی ہے کہ حضرت زبیر ؓ بھی حلال ہو گئے تھے اور ان کے پاس ہدی نہیں تھی۔
(فتح الباري779/3)
واللہ أعلم۔
(3)
اس میں حضرت عائشہ ؓ کے طواف کا ذکر تغلیبا آ گیا ہے کیونکہ انہیں تو حیض آ گیا تھا اور انہوں نے شروع میں بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا جیسا کہ دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1796