سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
25. باب فِي جُلُوسِ الرَّجُلِ
باب: آدمی کس طرح بیٹھے؟
حدیث نمبر: 4847
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ , وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَّانَ الْعَنْبَريُّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي جَدَّتَايَ صَفِيَّةُ , وَدُحَيْبَةُ ابنتا عليبة، قَالَ مُوسَى: بِنْتِ حَرْمَلَةَ وَكَانَتَا رَبِيبَتَيْ قَيْلَة بِنْتِ مَخْرَمَةَ وَكَانَتْ جَدَّةَ أَبِيهِمَا أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُمَا،" أَنَّهَا رَأَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ قَاعِدٌ الْقُرْفُصَاءَ , فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُخْتَشِعَ، وَقَالَ مُوسَى: الْمُتَخَشِّعَ فِي الْجِلْسَةِ أُرْعِدْتُ مِنَ الْفَرَقِ.
قیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ دونوں ہاتھ سے احتباء کرنے والے کی طرح بیٹھے ہوئے تھے تو جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھنے میں «مختشع» اور موسیٰ کی روایت میں ہے «متخشع» ۱؎ دیکھا تو میں خوف سے لرز گئی ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الإشتذان 50 (2814)، الشمائل (66)، (تحفة الأشراف: 18047) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ان دونوں لفظوں میں سے پہلا باب افتعال، اور دوسرا باب تفعل سے ہے، دونوں کے معنیٰ عاجزی اور گریہ و زاری کرنے والا ہے۔
۲؎: یہ نور الٰہی کا اجلال تھا کہ عاجزی کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رعب دل میں اتنا زیادہ سما گیا۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4847  
´آدمی کس طرح بیٹھے؟`
قیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ دونوں ہاتھ سے احتباء کرنے والے کی طرح بیٹھے ہوئے تھے تو جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھنے میں «مختشع» اور موسیٰ کی روایت میں ہے «متخشع» ۱؎ دیکھا تو میں خوف سے لرز گئی ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4847]
فوائد ومسائل:
1) احتباء اور قرفصاء یہاں دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، یہ بیٹھنے کا ایک انداز ہے، جس کی وضاحت ترجمے میں موجود ہے، آدمی اس طرح سے کبھی مجلس میں بھی بیٹھ جاتا ہے۔
اس میں تواضع، انکسار اور خشوع کا اظہار ہوتا ہے۔
مگر خطبہ جمعہ میں ا س طرح بیٹھنا ممنوع ہے۔
دیکھئے: (سنن أبي داود، الصلاة: حدیث: 1110)
2) حضرت قیلہ رضی اللہ عنہ کا لرزہ براندام ہونا اس تاثر کی وجہ سے تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ جیسی عظیم ہستی کا ظاہری بیٹھنا اس قدر خشوع اور انکسار کا مظہر ہے تو باطنی طور پر آپ ﷺ کی کیا کیفیت ہو گی اور ہم عام لوگ کس قدر بے پرواہ ہیں۔

3) اس حدیث سے یہ بھی اخذ کیا گیا کے کہ رسول اللہ ﷺ با وجود تواضع اور خشوع کے انتہا ئی بارعب اور ہیبت و دبدبہ والے تھے۔
اور یہ سب للہیت اور خشیت کا نتیجہ تھا۔

4) ہر صاحبِ ایمان کو اپنی نشست و بر خاست میں تواضع کا انداز اختیار کرنا چاہیئے۔
اس سے وقار میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اضافہ ہی ہوتا ہے۔

5) مذکورہ دونوں روایات سندََا ضعیف ہیں، لیکن دیگر شواہد کی بنا پر حسن یا صحیح درجے تک پہنچ جاتی ہیں، جیسا کہ خود ہمارے فاضل محقق نے4846 نمبر حدیث کی تحقیق میں صحیح بخاری کا حوالہ ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ وہ یغني عنه یعنی بخاری کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔
علاوہ ازیں شیخ البانی ؒ نےپہلی روایت کو صحیح اور دوسری کو حسن قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیئے دیکھئے: (الصحیحة، حديث: ٨٦٧، الترمذي، حديث: ٦٩٧٩)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4847