سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
27. باب النَّهْىِ عَنِ السَّمَرِ، بَعْدَ الْعِشَاءِ
باب: عشاء کے بعد بات چیت منع ہے۔
حدیث نمبر: 4849
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عَوْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْمِنْهَالِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ النَّوْمِ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثِ بَعْدَهَا".
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے ۱؎ اور اس کے بعد بات کرنے ۲؎ سے منع فرماتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/ المواقیت 23 (568)، سنن الترمذی/الصلاة 11 (168)، سنن ابن ماجہ/ الصلاة 125 (701)، (تحفة الأشراف: 11605، 11606) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: کیونکہ اس میں عشاء چھوٹ جانے کا خطرہ رہتا ہے۔
۲؎: اور اس صورت میں قیام اللیل (تہجد) اور فجر کے چھوٹنے کا خطرہ رہتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 168  
´عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کی کراہت کا بیان۔`
ابوبرزہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 168]
اردو حاشہ:
1؎:
عشاء سے پہلے سونے کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عشا ء فوت ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے،
اور عشاء کے بعد بات کرنا اس لیے نا پسندیدہ ہے کہ اس سے سونے میں تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے تہجد یا فجر کے لیے اٹھنا مشکل ہو جاتا ہے امام نووی نے علمی مذاکرہ وغیرہ کو جو جائز اور مستحب بتایا ہے تو یہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ نمازِ فجر وقت پر ادا کی جائے،
اگر رات کو تعلیم و تعلم یا وعظ و تذکیر میں اتنا وقت صرف کر دیا جائے کہ فجرکے وقت اٹھا نہ جا سکے تو یہ جواز و استحباب بھی محل نظر ہوگا۔
(دیکھئے اگلی حدیث اور اس کا حاشہ)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 168   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4849  
´عشاء کے بعد بات چیت منع ہے۔`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے ۱؎ اور اس کے بعد بات کرنے ۲؎ سے منع فرماتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4849]
فوائد ومسائل:
عشاء کی نماز سے پہلے سو جانے سے اندیشہ ہے کہ عشاء کی نماز یا جماعت فوت ہا جائےٓ اور ایسے ہی عشاء کی نماز کے بعد بے مقصد باتوں میں مشغول رہنے سے فجر کی نماز یا جماعت فوت ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
ہاں اگر کو ئی اہم مقصد ہو تو مشغول ہونا جائز ہے۔
جیسے کی طلباء کا رات گئے تک مطالعہ یا مذاکرہ کرنا یا دیگر اہم ذمہ داریوں کی ادائیگی کی غرض سے جاگنا جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ فجر کی نماز ضائع نہ ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4849