صحيح البخاري
كِتَاب الْعُمْرَةِ -- کتاب: عمرہ کے مسائل کا بیان
13. بَابُ اسْتِقْبَالِ الْحَاجِّ الْقَادِمِينَ وَالثَّلاَثَةِ عَلَى الدَّابَّةِ:
باب: مکہ آنے والے حاجیوں کا استقبال کرنا اور تین آدمیوں کا ایک سواری پر چڑھنا۔
حدیث نمبر: 1798
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ اسْتَقْبَلَتْهُ أُغَيْلِمَةُ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَحَمَلَ وَاحِدًا بَيْنَ يَدَيْهِ وَآخَرَ خَلْفَهُ".
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے تو بنو عبدالمطلب کے چند بچوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو (اپنی سواری کے) آگے بٹھا لیا اور دوسرے کو پیچھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1798  
1798. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ تشریف لائے تو بنی عبدالمطلب کے چندلڑکے آپ کے استقبال کے لیے گئے ان میں سے ایک کو تو آپ نے اپنے آگے اور دوسرے کواپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1798]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ حاجی کا آگے جاکر استقبال کرنا بھی سنت ہے مگر ہار پھول کا مروجہ رواج ایسا ہے جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں اور اس سے ریا، نمود، عجب کا بھی خطرہ ہے، لہٰذا اچھے حاجی کو ان چیزوں سے ضرور پرہیز کرنا لازم ہے ورنہ خطرہ ہے کہ سفر حج کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ رائیگاں جائیں اور بجائے ثواب کے حج الٹا باعث عذاب بن جائے کیوں کہ ریا، نمود، عجب ایسی بیماریاں ہیں جن سے نیک اعمال اکارت ہو جاتے ہیں۔
حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اونٹ وغیرہ پر بشرطیکہ ان جانوروں میں طاقت ہو بیک وقت تین آدمی سواری کرسکتے ہیں، بنو عبدالمطلب کے لڑکے آپ ﷺ کے استقبال کو آئے اس سے خاندانی محبت جو فطری چیز ہے اس کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
نوجوانان خاندان عبدالمطلب کے لیے اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے کہ آج ان کے ایک بزرگ ترین فرد رسول معظم، سردار بنی آدم، فخر دو عالم ﷺ کی شان میں مکہ شریف میں داخل ہورہے ہیں۔
آج وہ قسم پوری ہوئی جو قرآن مجید میں ان لفظوں میں بیان کی گئی ﴿لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ﴾ توراۃ کا وہ نوشتہ پورا ہوا جس میں ذکر ہے کہ فاران سے ہزارہا قدسیوں کے ساتھ ایک نور ظاہر ہوا۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بچوں سے پیار محبت، شفقت کا برتاؤ کرنا بھی سنت نبوی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1798   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1798  
1798. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ تشریف لائے تو بنی عبدالمطلب کے چندلڑکے آپ کے استقبال کے لیے گئے ان میں سے ایک کو تو آپ نے اپنے آگے اور دوسرے کواپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1798]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ عنوان حج کے لیے جانے والوں اور حج سے واپس آنے والوں کا استقبال کرنا، دونوں مواقع پر مشتمل ہے۔
اگرچہ اس حدیث میں حج کے لیے آنے والوں کے استقبال کا ذکر ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے حج سے واپس جانے والوں کو بھی شامل ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاجیوں کی آمدورفت کے وقت ان کی تعظیم و اکرام کرتے ہوئے استقبال کرنا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کا استقبال کرنے والوں کا روکا نہیں بلکہ ایک کو اپنے آگے دوسرے کو پیچھے بٹھا کر استقبال کی توثیق فرمائی۔
اسی طرح جب کوئی جہاد کر کے یا کسی دوسرے سفر سے واپس آئے تو اس کی دل جمعی، خاطر داری اور الفت و محبت کے لیے استقبال کرنا جائز ہے۔
(3)
یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک سواری پر تین یا زیادہ آدمی سوار ہو سکتے ہیں بشرطیکہ سواری میں انہیں اٹھانے کی طاقت ہو، اور جس حدیث میں اس کی کراہت ہے وہ اس وقت ہے جب سواری ان کی متحمل نہ ہو۔
(عمدةالقاري: 435/7) (4)
واضح رہے کہ مذکورہ عنوان دو حصوں پر مشتمل ہے:
٭ حُجاج کا استقبال کرنا۔
٭ سواری پر تین آدمیوں کو بیٹھنا۔
دوسرا حصہ تو واضح ہے، البتہ پہلا حصہ بھی عموم لفظ سے ثابت ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1798