سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
36. باب فِي الرَّجُلِ يَضَعُ إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الأُخْرَى
باب: ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھ کر لیٹنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4865
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ. ح وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَضَعَ وَقَالَ قُتَيْبَةُ: يَرْفَعَ الرَّجُلُ إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى , زَادَ قُتَيْبَةُ وَهُوَ مُسْتَلْقٍ عَلَى ظَهْرِهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ آدمی اپنا ایک پاؤں دوسرے پر رکھے۔ قتیبہ کی روایت میں «أن يضع» کے بجائے «أن يرفع» کے الفاظ ہیں، اور قتیبہ کی روایت میں یہ بھی زیادہ ہے اور وہ اپنی پیٹھ کے بل چت لیٹا ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/اللباس 20 (2099)، سنن الترمذی/الأدب 20 (2767)، (تحفة الأشراف: 2692، 2905)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/362، 367) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2766  
´ایک ٹانگ کو دوسری پر رکھ کر چٹ لیٹنے کی کراہت کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی پیٹھ کے بل لیٹے تو اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر نہ رکھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2766]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں جوممانعت ہے اس کا تعلق اس صورت سے ہے جب بے پردگی کا خوف ہو،
اگر ایسا نہیں ہے مثلاً آدمی پائجامہ اورشلواروغیرہ میں ہے تو ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پررکھ کرچت لیٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے،
جیسا کہ پچھلی حدیث میں نبی اکرمﷺ کے بارے میں بیان ہوا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2766   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4865  
´ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھ کر لیٹنا منع ہے۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ آدمی اپنا ایک پاؤں دوسرے پر رکھے۔ قتیبہ کی روایت میں «أن يضع» کے بجائے «أن يرفع» کے الفاظ ہیں، اور قتیبہ کی روایت میں یہ بھی زیادہ ہے اور وہ اپنی پیٹھ کے بل چت لیٹا ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4865]
فوائد ومسائل:
کیونکہ اس میں بے پردگی کا اندیشہ ہوتا ہے اور مجلس میں دوسروں کے سامنے ایسا عمل ویسے ہی برا لگتا ہے۔
تاہم اس کا جواز بھی ہے، با لخصوص جب بے پردگی کا اندیشہ نہ ہو۔
جیسے کہ درجِ ذیل روایات میں آرہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4865