سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
44. باب فِي النَّهْىِ عَنِ التَّجَسُّسِ
باب: تجسس کرنا اور ٹوہ لگانا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4888
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّمْلِيُّ , وَابْنُ عَوْفٍ , وَهَذَا لَفْظُهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّكَ إِنِ اتَّبَعْتَ عَوْرَاتِ النَّاسِ أَفْسَدْتَهُمْ أَوْ كِدْتَ أَنْ تُفْسِدَهُمْ" , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ كَلِمَةٌ سَمِعَهَا مُعَاوِيَةُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ نَفَعَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِهَا.
معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑو گے، تو تم ان میں بگاڑ پیدا کر دو گے، یا قریب ہے کہ ان میں اور بگاڑ پیدا کر دو ۱؎۔ ابو الدرداء کہتے ہیں: یہ وہ کلمہ ہے جسے معاویہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور اللہ نے انہیں اس سے فائدہ پہنچایا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11413) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: کیونکہ راز فاش ہو جانے کی صورت میں ان کی جھجھک ختم ہو جائے گی، اور وہ کھلم کھلا گناہ کرنے لگیں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4888  
´تجسس کرنا اور ٹوہ لگانا منع ہے۔`
معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑو گے، تو تم ان میں بگاڑ پیدا کر دو گے، یا قریب ہے کہ ان میں اور بگاڑ پیدا کر دو ۱؎۔ ابو الدرداء کہتے ہیں: یہ وہ کلمہ ہے جسے معاویہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور اللہ نے انہیں اس سے فائدہ پہنچایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4888]
فوائد ومسائل:
1) عین ممکن ہے کہ لوگ عیب کھل جانے کی وجہ سے مزید جری ہو جائیں اور علی الا علان غلط کام کرنے لگیں۔
تاہم امام ِ عادل نصیحت اور اصلاح ِ احوال کے لیئے ان کی خبریں معلوم کرے تو جائز ہو گا۔

2) جس طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس فرمانِ نبوی سے فائدہ ہوا کہ وہ ایک کامیاب امیر رہے اس طرح امت کے سب افراد ان کی اتبا ع کر کے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4888