سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
53. باب فِي اللَّعْنِ
باب: لعنت کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4907
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ , وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، أَنَّ أُمَّ الدَّرْدَاءِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَكُونُ اللَّعَّانُونَ شُفَعَاءَ وَلَا شُهَدَاءَ".
ام الدرداء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ابوالدرداء کو سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: لعنت کرنے والے نہ سفارشی ہو سکتے ہیں اور نہ گواہ ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/البروالصلة 24 (2598)، (تحفة الأشراف: 10980)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/448) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے فرد نہیں ہو سکتے، کیونکہ آپ کی امت قیامت کے روز دوسری امتوں پر سفارشی اور گواہ ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1309  
بہت لعنت کرنے والے شفاعت اور شہادت سے محروم رہیں گے
«‏‏‏‏وعن ابي الدرداء رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إن اللعانين لا يكونون شفعاء ولا شهداء يوم القيامة ‏‏‏‏ اخرجه مسلم.»
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک بہت لعنت کرنے والے قیامت کے دن شفاعت کرنے والے ہوں گے نہ شہادت دینے والے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1309]

تخریج:
[مسلم البروالصلة/86]

فوائد:
بہت لعنت کرنے والوں کی شفاعت اور شہادت کیوں قبول نہیں ہو گی۔ بہت لعنت کرنا مومن کا وصف ہی نہیں اس پر مفصل کلام بلوغ المرام حدیث [1417] میں گزر چکا ہے اور دنیا میں بھی شہادت کے لیے شاہد کا پسندیدہ اور عدل ہونا ضروری ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ» [64-الطلاق:2 ]
اور اپنے آپ میں دو عدل والوں کو گواہ بناؤ۔
اور فرمایا:
«مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ» [2-البقرة:282]
ان گواہوں میں سے جنہیں تم پسند کرتے ہو۔
ظاہر ہے کہ بہت لعنت کرنے والا شخص جس کی عادت ہی لعن طعن کی ہو نہ پسندیدہ ہوتا ہے، نہ سچا، نہ صاحب عدل، بلکہ لوگوں کی نگاہوں میں نہایت ناپسندیدہ، فاسق، ظالم اور غلط بیانی کرنے والا ہوتا ہے کیونکہ جو لوگ لعنت کے مستحق نہیں ان پر لعنت کرتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسے لوگوں کی شہادت صرف دنیا میں رد نہیں کی جائے گی بلکہ آخرت میں بھی نہ شہادت دینے کی جرات کر سکیں گے نہ انہیں وہ عزت و وجاہت حاصل ہو گی کہ کسی کی سفارش کر سکیں جبکہ اللہ کے صادق و عادل اہل ایمان بندے سفارش بھی کریں گے اور حق کی دوسری شہادتوں کے ساتھ ساتھ اس بات کی شہادت بھی دیں گے کہ انبیاء کرام نے تبلیغ رسالت کا فریضہ ادا کر دیا ہے۔
بعض علماء نے اس کی یہ تفسیر بھی فرمائی ہے کہ بہت لعنت کرنا ایسا گناہ ہے کہ اس کا مرتکب شہادت یعنی قتل فی سبیل اللہ کی سعادت سے محروم رہے گا۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 227   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1309  
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ لعنت کرنے والے قیامت کے روز نہ سفارش کرنے والے ہوں گے اور نہ گواہی دینے والے۔ (مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1309»
تخریج:
«أخرجه مسلم، البر والصلة، باب النهي عن لعن الدواب وغيرها، حديث:2598.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کثرت سے لعنت کرنے والے لوگوں کی سفارش قبول نہیں فرمائے گا اور نہ ایسے لوگوں کی شہادت قبول کی جائے گی۔
2. اس قبولیتِ شہادت کا تعلق بعض نے دنیا سے بتایا ہے کہ چونکہ ایسے لوگ فاسق ہوتے ہیں‘ اس لیے ان کی شہادت دنیا میں قبول نہیں کی جائے گی۔
اور بعض نے کہا ہے کہ یہ لوگ قیامت کے روز انبیائے کرام علیہم السلام کی تبلیغ دین پر شہادت نہیں دے سکیں گے۔
اور بعض نے اس کا مطلب یوں بیان کیا ہے کہ یہ اللہ کی راہ میں مارے جائیں تب بھی شہادت کا مرتبہ نہیں پا سکیں گے۔
(سبل السلام)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1309   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4907  
´لعنت کرنے کا بیان۔`
ام الدرداء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ابوالدرداء کو سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: لعنت کرنے والے نہ سفارشی ہو سکتے ہیں اور نہ گواہ ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4907]
فوائد ومسائل:
یہ کس قدر بڑی محرومی ہے کہ کسی بندے کو اس فضیلت سے محروم کر دیا جائے۔
حالانکہ اہلِ ایمان اپنے عزیزوں اور دوسروں کی سفارش کر سکیں گے اور ان کے لیے گواہ بھی بنیں گے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4907