سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
55. باب فِيمَنْ يَهْجُرُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ
باب: مسلمان بھائی سے ترک تعلق کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 4916
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ كُلَّ يَوْمِ اثْنَيْنِ وَخَمِيسٍ فَيُغْفَرُ فِي ذَلِكَ الْيَوْمَيْنِ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا مَنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا" , قَالَ أَبُو دَاوُد: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَجَرَ بَعْضَ نِسَائِهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، وَابْنُ عُمَرَ هَجَرَ ابْنًا لَهُ إِلَى أَنْ مَاتَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: إِذَا كَانَتِ الْهِجْرَةُ لِلَّهِ فَلَيْسَ مِنْ هَذَا بِشَيْءٍ، وَإِنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ غَطَّى وَجْهَهُ عَنْ رَجُلٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دوشنبہ اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں پھر ان دنوں میں ہر اس بندے کی مغفرت کی جاتی ہے، جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتا البتہ اس بندے کی نہیں جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان دشمنی اور رقابت ہو، پھر کہا جاتا ہے: ان دونوں (کی مغفرت) کو ابھی رہنے دو جب تک کہ یہ صلح نہ کر لیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض ازواج مطہرات کو چالیس دن تک چھوڑے رکھا، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ایک بیٹے سے بات چیت بند رکھی یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ قطع کلامی اگر اللہ کے لیے ہو ۱؎ تو اس میں کوئی حرج نہیں اور عمر بن عبدالعزیز نے ایک شخص سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12798)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/البر والصلة 11 (2565)، سنن الترمذی/البر والصلة 76 (2024)، مسند احمد (2/465) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ کے حقوق میں کسی سے کسی حق کی پاسداری کے لئے ہو تو یہ اس وعید میں داخل نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1740  
´دوشنبہ (سوموار) اور جمعرات کا روزہ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے، تو پوچھا گیا: اللہ کے رسول! آپ دوشنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو شنبہ اور جمعرات کو اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو بخش دیتا ہے سوائے دو ایسے لوگوں کے جنہوں نے ایک دوسرے سے قطع تعلق کر رکھا ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ان دونوں کو چھوڑو یہاں تک کہ باہم صلح کر لیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1740]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سوموار اور جمعرات کو نفل روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چا ہیے۔

(2)
روزہ ایک بڑا نیک عمل ہے جس کی برکت سے مغفرت کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے۔

(3)
مسلمانو ں کا ایک دوسرے سے بلا وجہ ناراض رہنا بڑا گنا ہ ہے
(4)
کسی دینی وجہ سے ناراضی رکھنا اور اہل و عیال کو تنبیہ کرنے کے لئے ناراض ہو جانا اس وعید میں شامل نہیں۔

(5)
بعض لوگوں نے سوموار کے روزے سے عید میلاد کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے سوموار کے دن پیدا ہونے پر علمائے کرام کا اتفاق ہے لیکن استدالال محل نظر ہے اس لئے کہ اس دن روزہ رکھنا سنت ہے نہ کہ عید منانا اور عید روزے کے منافی ہے نیز ہفت روزہ عید پر سالانہ عید کو قیاس کرنا درست نہیں۔
کیونکہ ربیع الاول رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہر سال آتا رہا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس مہینے میں عید نہیں منائی۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھیے: (عید میلاد کی تار یخی و شرعی حيثیت اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ از حا فظ صلاح الد ین یوسف رحمۃ اللہ علیہ)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1740   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 747  
´سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کے دن روزہ رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کو اعمال (اللہ کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 747]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں محمد بن رفاعہ لین الحدیث راوی ہے،
لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 747