سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
59. باب فِي النَّهْىِ عَنِ الْغِنَاءِ
باب: گانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4922
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، قَالَتْ:" جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ عَلَيَّ صَبِيحَةَ بُنِيَ بِي فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي فَجَعَلَتْ جُوَيْرِيَاتٌ يَضْرِبْنَ بِدُفٍّ لَهُنَّ وَيَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِي يَوْمَ بَدْرٍ إِلَى أَنْ قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي الْغَدِ، فَقَالَ: دَعِي هَذِهِ وَقُولِي الَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ".
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اس صبح آئے، جس رات میرا شب زفاف ہوا تھا تو آپ میرے بستر پر ایسے بیٹھ گئے جیسے تم (خالد بن ذکوان) بیٹھے ہو، پھر (انصار کی) کچھ بچیاں اپنے دف بجانے لگیں اور اپنے غزوہ بدر کی شہید ہونے والے آباء و اجداد کا اوصاف ذکر کرنے لگیں یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا: اور ہمارے بیچ ایک ایسا نبی ہے جو کل ہونے والی باتوں کو بھی جانتا ہے، تو آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو اور وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المغازي 12 (4001)، سنن الترمذی/النکاح 6 (1090)، سنن ابن ماجہ/النکاح 21 (1897)، (تحفة الأشراف: 15832)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/359، 360) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1897  
´(شادی بیاہ میں) گانے اور دف بجانے کا بیان۔`
ابوالحسین خالد مدنی کہتے ہیں کہ ہم عاشورہ کے دن مدینہ میں تھے، لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا رہی تھیں، پھر ہم ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، ان سے یہ بیان کیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری شادی کے دن صبح میں آئے، اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں گا رہی تھیں، اور بدر کے دن شہید ہونے والے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کر رہی تھیں، گانے میں جو باتیں وہ کہہ رہی تھیں ان میں یہ بات بھی تھی: «وفينا نبي يعلم ما في غد» ہم میں مستقبل کی خبر رکھنے والے نبی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا مت کہو، اس لیے کہ کل کی با۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1897]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عاشورا دس محرم کو کہتے ہیں۔
اس دن حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات ملی تھی اور کافر سمندر میں ڈوب مرے تھے، اس لیے اس دن یہودی خوشی مناتے اور شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 1734)
رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور ممکن ہے خوشی کا اظہار بھی کیا ہو۔
بعد میں عاشورا کے روزے کا وجوب منسوخ ہو گیا اور خوشی کے لیے عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن مقرر ہو گئے۔
اب ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ عاشورا کا روزہ رکھیں اور اس کے ساتھ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھیں تاکہ یہودیوں سے مشابہت نہ رہے۔

(2)
حضرت ربیع کی شادی کا واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہو گا اس لیے رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں تشریف لے گئے۔
ورنہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد صحابیات رضی اللہ عنہن رسول اللہ ﷺ سے بھی پردہ کرتی تھیں۔
نبی ﷺ ان سے بیعت بھی پردے کے پیچھے سے زبانی اقرار کے ساتھ لیتے تھے۔ (صحیح البخاري، الشروط، باب ما یجوز من الشروط فی الإسلام والأحکام والمبایعة، حدیث: 2713)

(3)
شادی کے موقع پر چھوٹی بچیوں کا گیت گانا اور دف بجانا جائز ہے۔

(4)
بزرگوں کو چاہیے کہ خوشی کے موقع پر بچوں اور بچیوں کو جائز حد تک تفریحی مشاغل کی اجازت دیں لیکن جب بچے کوئی ناجائز کام کرنے لگیں تو انہیں توجہ دلائیں کہ یہ درست نہیں۔

(5)
رسول اللہ ﷺ کی تعریف اور نعت گوئی ایک مبارک عمل ہے لیکن غلو جائز نہیں۔
بزرگوں کی وہ صفات بیان کرنا جائز ہیں جو ان میں واقعتا موجود ہوں۔
مبالغے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(6)
نبی ﷺ عالم الغیب نہیں تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1897   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4922  
´گانے کا بیان۔`
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اس صبح آئے، جس رات میرا شب زفاف ہوا تھا تو آپ میرے بستر پر ایسے بیٹھ گئے جیسے تم (خالد بن ذکوان) بیٹھے ہو، پھر (انصار کی) کچھ بچیاں اپنے دف بجانے لگیں اور اپنے غزوہ بدر کی شہید ہونے والے آباء و اجداد کا اوصاف ذکر کرنے لگیں یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا: اور ہمارے بیچ ایک ایسا نبی ہے جو کل ہونے والی باتوں کو بھی جانتا ہے، تو آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو اور وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4922]
فوائد ومسائل:
1) بچیوں کو انکی خانہ آبادی پر مبارکباد دینے جانا مستحب عمل ہے۔

2) ایسی خوشیوں کے مواقع پر چھوٹی نابالغ بچیوں کا دف بجانا جائز اور مستحب ہے تا کہ نکاح اور شادی کا اعلان ہو۔

3) آلاتِ مو سیقی میں سےصرف دف ہی ایک ایسا آلہ ہے جو شریعت میں جائز قرار دیا گیا ہے اور یہ خود ساختہ سادہ سی ڈھولک ہوتی ہے جس کی ایک جانب کھلی ہوتی ہے۔

4) اسلاف مسلمین کے کارناموں کا ذکر کرنا ممدوح ہے۔

5) شادمانی کا موقع ہو یا کسی غمی کا ایسی بات کہنا یا کرنا جو شرعی اُصول و قواعد کے خلاف ہو ناجائز ہے۔

6) رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ عقیدہ کہ آپ علمِ غیب جانتے تھے غلط عقیدہ ہے نبی ﷺ نے اس کی تصدیق و تائید نہیں فرمائی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4922