سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
60. باب كَرَاهِيَةِ الْغِنَاءِ وَالزَّمْرِ
باب: گانے بجانے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4924
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْغُدَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ:" سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ مِزْمَارًا، قَالَ: فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى أُذُنَيْهِ وَنَأَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَقَالَ لِي: يَا نَافِعُ هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا، قَالَ: فَقُلْتُ: لَا، قَالَ: فَرَفَعَ إِصْبَعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ، وَقَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَ مِثْلَ هَذَا فَصَنَعَ مِثْلَ هَذَا" , قَالَ أَبُو عَلِيٍّ الْلُؤْلُئِيُّ: سَمِعْت أَبَا دَاوُد، يَقُولُ: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ.
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک باجے کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈال لیں اور راستے سے دور ہو گئے اور مجھ سے کہا: اے نافع! کیا تمہیں کچھ سنائی دے رہا ہے میں نے کہا: نہیں، تو آپ نے اپنی انگلیاں کانوں سے نکالیں، اور فرمایا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس جیسی آواز سنی تو آپ نے بھی اسی طرح کیا۔ ابوعلی لؤلؤی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا: یہ حدیث منکر ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 7672)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/8، 38) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1901  
´(شادی بیاہ میں) گانے اور دف بجانے کا بیان۔`
مجاہد کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا انہوں نے طبلہ کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈال لیں، اور وہاں سے ہٹ گئے یہاں تک کہ ایسا تین مرتبہ کیا، پھر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1901]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
مذکورہ روایت کو ہارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے تاہم حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنما کا یہ عمل اور ان کا یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ بھی ایسے کیا کرتے تھے جناب نافع کے واسطے سے صحیح اور حسن سند کے ساتھ مسند احمد، سنن ابی داؤد، ابن حبان، طبرانی صغیر اور بیہقی میں مروی ہے جسے دیگر محققین نے بھی صحیح اور حسن قرار دیا ہے لیکن ان روایات میں ڈھول کی آواز کی بجائے بانسری کی آواز کا ذکر ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیئے:
(الموسوعة الحدیثیة مسندالإمام أحمد: 8؍132، 133، 134، وسنن ابی داؤد، الأدب، باب کراہیة الغناء والزمر، حدیث: 4924، 4926، والطبرانی: 1؍131، وصحیح ابن حبان، حدیث: 2013، والبیہقی: 10؍222)
لہٰذا صحیح احادیث سے بھی اس بات کی تائید ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کو ساز کی آواز سے نفرت تھی۔

(2)
گناہ والی آواز سے جس قدر ممکن ہو بچنا چاہیے۔

(3)
دف کے سوا کوئی ساز بجانا سننا جائز نہیں۔

(4)
اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ دف کی اجازت سے جو لوگ ڈھول ڈھمکوں ساز و موسیقی اور ہر قسم کے راگ و رنگ کا جواز کشید کرتے ہیں وہ یکسر غلط ہے۔
دف کے علاوہ مذکورہ تمام قسمیں یکسر ناجائز اور مطلقا حرام اور شیطانی کام ہیں۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
مسنون نکاح اور شادی بیان کی رسومات مولفہ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1901   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4924  
´گانے بجانے کی کراہت کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک باجے کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈال لیں اور راستے سے دور ہو گئے اور مجھ سے کہا: اے نافع! کیا تمہیں کچھ سنائی دے رہا ہے میں نے کہا: نہیں، تو آپ نے اپنی انگلیاں کانوں سے نکالیں، اور فرمایا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس جیسی آواز سنی تو آپ نے بھی اسی طرح کیا۔ ابوعلی لؤلؤی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا: یہ حدیث منکر ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4924]
فوائد ومسائل:
امام ابو داؤد کا قول صحیح نہیں ہے، یہ روایت حسن اور بقول علامہ البانی ؒ صحیح ہے اور دیگر احادیث سے ثابت ہے کہ (لهو الحديث) سے مراد آلاتِ موسیقی ہیں، جنکی قطعاََ اجازت نہیں ہے۔
اور بالخصوص اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام کو طبلے کی تھاپ پر بجانا ان کی انتہائی توہین ہے اور موسیقی کی تمام لغویات حرام ہیں سوائے دف کے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4924