سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
78. باب فِي الْمَرْأَةِ تُكْنَى
باب: عورت کی کنیت رکھنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 4970
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ , وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ الْمَعْنَى , قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُلُّ صَوَاحِبِي لَهُنَّ كُنًى , قال: فَاكْتَنِي بابنِكِ عَبْدِ اللَّهِ" , يَعْنِي ابْن أخْتُهَا , قَالَ مُسَدَّدٌ: عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: فَكَانَتْ تُكَنَّى بِأُمِّ عَبْدِ اللَّهِ , قال أبو داود: وَهَكَذَا قَالَ قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ , وَمَعْمَرٌ جَمِيعًا، عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ، وَرَوَاهُ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حَمْزَةَ، وَكَذَلِكَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , وَمَسْلَمَةُ بْنُ قَعْنَبٍ، عَنْ هِشَامٍ، كَمَا قَالَ أَبُو أُسَامَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری تمام سہیلیوں کی کنیتیں ہیں، آپ نے فرمایا: تو تم اپنے بیٹے یعنی اپنے بھانجے عبداللہ کے ساتھ کنیت رکھ لو مسدد کی روایت میں (عبداللہ کے بجائے) عبداللہ بن زبیر ہے، عروہ کہتے ہیں: چنانچہ ان کی کنیت ام عبداللہ تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: قران بن تمام اور معمر دونوں نے ہشام سے اسی طرح روایت کی ہے، اور ابواسامہ نے ہشام سے اور ہشام نے عباد بن حمزہ سے اسے روایت کیا ہے، اور اسی طرح اسے حماد بن سلمہ اور مسلمہ بن قعنب نے ہشام سے روایت کیا ہے جیسا کہ ابواسامہ نے کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 16872)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/107، 151، 186، 260) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3739  
´اولاد ہونے سے پہلے کنیت رکھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ نے اپنی تمام بیویوں کی کنیت رکھی، صرف میں ہی باقی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم «ام عبداللہ» ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3739]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ میرے لیے بھی کوئی مناسب کنیت مقرر فرما دیجئے۔

(2)
ام المومنین ؓ نے یہ بات اس لیے کہی کہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی جس کے نام پر وہ کنیت رکھ سکتیں۔

(3)
نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی کنیت غا لباً حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی نسبت سے رکھی تھی جو ام المومنین ؓکے بھانجے اور حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ کے فرزند تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3739   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4970  
´عورت کی کنیت رکھنا کیسا ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری تمام سہیلیوں کی کنیتیں ہیں، آپ نے فرمایا: تو تم اپنے بیٹے یعنی اپنے بھانجے عبداللہ کے ساتھ کنیت رکھ لو مسدد کی روایت میں (عبداللہ کے بجائے) عبداللہ بن زبیر ہے، عروہ کہتے ہیں: چنانچہ ان کی کنیت ام عبداللہ تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: قران بن تمام اور معمر دونوں نے ہشام سے اسی طرح روایت کی ہے، اور ابواسامہ نے ہشام سے اور ہشام نے عباد بن حمزہ سے اسے روایت کیا ہے، اور اسی طرح اسے حماد بن سلمہ اور مسلمہ بن قعنب نے ہشام سے روایت کیا ہے جیسا کہ ابواسامہ نے کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4970]
فوائد ومسائل:
عورتوں کے لیے بھی جائز ہے کہ کنیت اختیار کرلیں خواہ اولاد ہو یا نہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4970