سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
88. باب فِي التَّشْدِيدِ فِي الْكَذِبِ
باب: جھوٹ بولنے کی شناعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4989
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا، وَعَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے اور سچ بولنے کو لازم کر لو اس لیے کہ سچ بھلائی اور نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے، آدمی سچ بولتا ہے اور سچ بولنے ہی میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/البروالصلة 29 (2607)، القدر 1 (2643)، سنن الترمذی/البر 46 (1971)، (تحفة الأشراف:9261)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب 69 (6094)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 7 (46)، موطا امام مالک/الکلام 7 (16)، مسند احمد 1(384، 405)، سنن الدارمی/الرقاق 7 (2757) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1314  
´مکارم اخلاق (اچھے عمدہ اخلاق) کی ترغیب کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچائی کو لازم پکڑو کہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی جانب رہنمائی کرتی ہے اور آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے حتیٰ کہ اسے اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو۔ جھوٹ گناہ کی جانب لے جاتا ہے اور گناہ آتشیں جہنم کی جانب لے جاتا ہے اور آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ میں کوشش کرتا رہتا ہے تو اسے اللہ کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1314»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأدب، باب قول الله تعالي: "يأيها الذين آمنوا اتقوا الله"، حديث:6094، ومسلم، البر والصلة، باب قبح الكذب...، حديث:2607.»
تشریح:
اس حدیث میں سچ بولنے والے کے حسن خاتمہ اور اس کے برے انجام سے مامون و محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1314   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1971  
´سچ کی فضیلت اور جھوٹ کی برائی کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچ بولو، اس لیے کہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے، آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے، اور جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ گناہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جاتا ہے، آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1971]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ ہمیشہ جھوٹ سے بچنا اور سچائی کو اختیار کرنا چاہیے،
کیوں کہ جھوٹ کا نتیجہ جہنم اور سچائی کا نتیجہ جنت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1971   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4989  
´جھوٹ بولنے کی شناعت کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے اور سچ بولنے کو لازم کر لو اس لیے کہ سچ بھلائی اور نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے، آدمی سچ بولتا ہے اور سچ بولنے ہی میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4989]
فوائد ومسائل:
سچ اور جھوٹ (صدق وکذب) کا تعلق صرف زبان کے الفاظ ہی سےنہیں بلکہ اس کا دائرہ فعل اور نیت تک وسیع ہے۔
فکری اعتبار سے انسان صدق کو متلاشی اور اس کےمطابق اپنے اعمال کوسر انجام دینے والا ہو اور اس کے برخلاف سے بچنے والا ہو تو یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔
ورنہ جلد یا بد دیر فضیحت سے بچ نہیں سکے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4989