سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
95. باب مَا جَاءَ فِي الشِّعْرِ
باب: شعر کا بیان۔
حدیث نمبر: 5013
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَلَفٍ , وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، قَالَ:" مَرَّ عُمَرُ بِحَسَّانَ وَهُوَ يُنْشِدُ فِي الْمَسْجِدِ فَلَحَظَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أُنْشِدُ وَفِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ".
سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں گھور کر دیکھا، تو انہوں نے کہا: میں شعر پڑھتا تھا حالانکہ اس (مسجد) میں آپ سے بہتر شخص (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) موجود ہوتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (3212)، صحیح مسلم/فضائل الصحابہ 34 (2485)، سنن النسائی/المساجد 24 (717)، (تحفة الأشراف: 3402)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/222) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5013  
´شعر کا بیان۔`
سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں گھور کر دیکھا، تو انہوں نے کہا: میں شعر پڑھتا تھا حالانکہ اس (مسجد) میں آپ سے بہتر شخص (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) موجود ہوتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 5013]
فوائد ومسائل:

مسجد میں دین اور اخلاقی موضوعات پر مشتمل اشعار کا پڑھنا جائز ہے۔


مگر یہ حقیقت بھی برمحل ہے۔
کہ شرعی مزاج شعروشاعری سے کوئی زیادہ مناسبت نہیں رکھتا۔
اسی وجہ سے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شعر پڑھنے کو ناپسنددیدگی کی نظر سے دیکھا۔


رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں کسی بڑے سے بڑے صالح متقی اور مصلح کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔


کسی صاحب فضل سے اگر کہیں فکر وعمل میں اختلافی صورت در پیش ہو تو اس کا جواب نہایت ادب واخلاق اور دلیل سے دیا جانا چاہیے۔


کوئی ادنیٰ اگر شرعی دلیل وحجت میں قوی ہو تو اس کے قبول کرلینے میں کسی بھی صاحب فضل کو عارنہیں ہونی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5013