سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
99. باب كَيْفَ تَشْمِيتُ الْعَاطِسِ
باب: چھینکنے والے کا جواب کیسے دے؟
حدیث نمبر: 5031
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ , فَقَالَ سَالِمٌ: وَعَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، ثُمَّ قال بَعْدُ: لَعَلَّكَ وَجَدْتَ مِمَّا قُلْتُ لَكَ , قال: لَوَدِدْتُ أَنَّكَ لَمْ تَذْكُرْ أُمِّي بِخَيْرٍ وَلَا بِشَرٍّ , قال: إِنَّمَا قُلْتُ لَكَ كَمَا قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ , فقال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَعَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ , قال: فَذَكَرَ بَعْضَ الْمَحَامِدِ، وَلْيَقُلْ لَهُ مَنْ عِنْدَهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَرُدَّ يَعْنِي عَلَيْهِمْ: يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ".
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ ہم سالم بن عبید کے ساتھ تھے کہ ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «السلام عليكم» (تم پر سلامتی ہو) تو سالم نے کہا: «عليك وعلى أمك» (تم پر بھی اور تمہاری ماں پر بھی) پھر تھوڑی دیر کے بعد بولے: شاید جو بات میں نے تم سے کہی تمہیں ناگوار لگی، اس نے کہا: میری خواہش تھی کہ آپ میری ماں کا ذکر نہ کرتے، نہ خیر کے ساتھ نہ شر کے ساتھ، وہ بولے، میں نے تم سے اسی طرح کہا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، اسی دوران کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اچانک لوگوں میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا: «السلام عليكم» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عليك وعلى أمك»، پھر آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو «الحمد الله» کہے اللہ کی تعریف کرے پھر آپ نے حمد کے بعض کلمات کا تذکرہ کیا (جو چھینک آنے والا کہے) اور چاہیئے کہ وہ جو اس کے پاس ہو «يرحمك الله» (اللہ تم پر رحم کرے) کہے، اور چاہیئے کہ وہ (چھینکنے والا) ان کو پھر جواب دے، «يغفر الله لنا ولكم» (اللہ ہماری اور آپ کی مغفرت فرمائے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأدب 3 (2740)، النسائی في الکبری 10053، وعمل الیوم واللیلة 86 (225)، (تحفة الأشراف: 3786)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/7) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں ہلال بن یساف اور سالم بن عبید کے درمیان ایک راوی ساقط ہے، اور عمل الیوم واللیلة (229) سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو راوی ساقط ہیں اور دونوں مبہم ہیں، مؤلف کی آگے آنے والی روایت (5032) سے ایک راوی خالد بن عرفجہ کا ساقط ہونا ظاہر ہوتا ہے، انہی اختلافات کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2740  
´چھینکنے والے کا جواب کس طرح دیا جائے؟`
سالم بن عبید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ان میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا: «السلام عليكم» (اس کے جواب میں) سالم رضی الله عنہ نے کہا: «عليك وعلى وأمك» (سلام ہے تم پر اور تمہاری ماں پر)، یہ بات اس شخص کو ناگوار معلوم ہوئی تو سالم نے کہا: بھئی میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «السلام عليكم» تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: «عليك وعلى أمك»، (تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو)۔ (آپ نے آ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2740]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(ہلال بن یساف اور سالم بن عبید کے درمیان سند میں دو راویوں کا سقط ہے،
عَملُ الْیَوْمِ وَاللَّیْلَة کی روایت رقم: 328-230 سے یہ سقط ظاہر ہے،
اگلی روایت صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2740   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5031  
´چھینکنے والے کا جواب کیسے دے؟`
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ ہم سالم بن عبید کے ساتھ تھے کہ ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «السلام عليكم» (تم پر سلامتی ہو) تو سالم نے کہا: «عليك وعلى أمك» (تم پر بھی اور تمہاری ماں پر بھی) پھر تھوڑی دیر کے بعد بولے: شاید جو بات میں نے تم سے کہی تمہیں ناگوار لگی، اس نے کہا: میری خواہش تھی کہ آپ میری ماں کا ذکر نہ کرتے، نہ خیر کے ساتھ نہ شر کے ساتھ، وہ بولے، میں نے تم سے اسی طرح کہا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، اسی دوران کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اچانک لوگوں میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا: «السلام عل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 5031]
فوائد ومسائل:
یہ روایت ضعیف ہے۔
اس کی بابت صحیح روایت (5033) آگے آرہی ہے۔
ان شاء اللہ
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5031