سنن ابي داود
أَبْوَابُ النَّوْمِ -- ابواب: سونے سے متعلق احکام و مسائل
119. باب فِي رَدِّ الْوَسْوَسَةِ
باب: وسوسہ دور کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5112
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , وَابْنُ قُدَامَةَ بْنِ أَعْيَنَ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَحَدَنَا يَجِدُ فِي نَفْسِهِ يُعَرِّضُ بِالشَّيْءِ لَأَنْ يَكُونَ حُمَمَةً أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ , فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَدَّ كَيْدَهُ إِلَى الْوَسْوَسَةِ" , قال ابْنُ قُدَامَةَ: رَدَّ أَمْرَهُ مَكَانَ رَدَّ كَيْدَهُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کے دل میں ایسا وسوسہ پیدا ہوتا ہے، کہ اس کو بیان کرنے سے راکھ ہو جانا یا جل کر کوئلہ ہو جانا بہتر معلوم ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے مکر کو وسوسہ بنا دیا (اور وسوسہ مومن کو نقصان نہیں پہنچاتا)۔ ابن قدامہ نے اپنی روایت میں «رد كيده» کی جگہ «رد أمره» کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 5788)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/232، 340) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 73  
´وسوسہ شکر کا ذریعہ بھی`
«. . . ‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنِّي أُحَدِّثُ نَفْسِي بِالشَّيْءِ لَأَنْ أَكُونَ حُمَمَةً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَكَلَّمَ بِهِ. قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَدَّ أَمْرَهُ إِلَى الْوَسْوَسَةِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد . . .»
. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مقدسہ میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں اپنے دل میں ایسا اور ویسا وسوسہ پاتا ہوں کہ میں کوئلہ ہو جانا زیادہ اچھا سمجھتا ہوں، اس سے کہ اس کو زبان سے نکالوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اللہ کی حمد اور شکر ہے جس نے اس بات کو وسوسہ کی طرف منتقل کر دیا یعنی دل میں وسوسہ ہی رکھا (اس کے بولنے اور عمل کرنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ جس پر مواخذہ ہوتا)۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 73]

تخریج:
[سنن ابي داود 5112]

تحقیق الحدیث:
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
اسے ابوداود کے علاوہ أحمد بن حنبل [1؍235 ح 2097] عبد بن حمید [المنتخب: 701] نسائی [الكبريٰ: 10504، عمل اليوم والليلة:
668]
طحاوی [معاني الآثار 2؍252] ابن حبان [الاحسان: 147] بیہقی [شعب الايمان: 341، 342] اور ابن مندہ [الايمان: 345] نے بھی روایت کیا ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحیح العقیدہ اہل حق کے دلوں میں بھی شیطان مسلسل وسوسے ڈالنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔
➋ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایمان کے اعلیٰ ترین درجوں پر فائز تھے۔ وہ شیطانی وسوسوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔
«حممة» جلے ہوئے کوئلے کو کہتے ہیں۔
➍ اللہ کے فضل وکرم پر الحمدللہ کہنا چاہئے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 73   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5112  
´وسوسہ دور کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کے دل میں ایسا وسوسہ پیدا ہوتا ہے، کہ اس کو بیان کرنے سے راکھ ہو جانا یا جل کر کوئلہ ہو جانا بہتر معلوم ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے مکر کو وسوسہ بنا دیا (اور وسوسہ مومن کو نقصان نہیں پہنچاتا)۔ ابن قدامہ نے اپنی روایت میں «رد كيده» کی جگہ «رد أمره» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5112]
فوائد ومسائل:
دل میں آنے والے خیالات عزم سے پہلے پہلے ھواجس اور خواطر یعنی وساوس کی حد تک ہوں تو ان پر کوئی مواخذہ نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5112