سنن ابي داود
أَبْوَابُ النَّوْمِ -- ابواب: سونے سے متعلق احکام و مسائل
129. باب كَيْفَ يُكْتَبُ إِلَى الذِّمِّيِّ
باب: ذمی (کافر معاہد) کو کس طرح خط لکھا جائے؟
حدیث نمبر: 5136
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ , وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى هِرَقْلَ: مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ: إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ: سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى" , قال ابْنُ يَحْيَى، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ، فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ: مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ: إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ: سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى: أَمَّا بَعْدُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کے نام خط لکھا: اللہ کے رسول محمد کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام، سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ محمد بن یحییٰ کی روایت میں ہے، ابن عباس سے مروی ہے کہ ابوسفیان نے ان سے کہا کہ ہم ہرقل کے پاس گئے، اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا تو اس میں لکھا تھا:   «بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله إلى هرقل عظيم الروم سلام على من اتبع الهدى أما بعد» ۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/بدء الوحي 1 (7)، الجھاد 102 (2978)، تفسیر سورة آل عمران 4 (4553)، صحیح مسلم/الجھاد 27 (1773)، سنن الترمذی/الاستئذان 24 (2717)، (تحفة الأشراف: 4850، 5853)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/262، 263) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5136  
´ذمی (کافر معاہد) کو کس طرح خط لکھا جائے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کے نام خط لکھا: اللہ کے رسول محمد کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام، سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔‏‏‏‏ محمد بن یحییٰ کی روایت میں ہے، ابن عباس سے مروی ہے کہ ابوسفیان نے ان سے کہا کہ ہم ہرقل کے پاس گئے، اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا تو اس میں لکھا تھا: «بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله إلى هرقل عظيم الروم سلام على من اتبع الهدى أما بعد» ۔ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5136]
فوائد ومسائل:

خط ہو یا کوئی اوراہم تحریریں اس کی ابتداء میں بسم الله الرحمٰن الرحيم لکھنا سنت ہے۔
اس کی بجائے عدد لکھنا خلاف سنت اور بدعت سیئہ ہے۔


خط میں پہلے کاتب اپنا نام لکھے اس کے بعد مکتوب الیہ کا

کافر کے نام خط میں مسنون سلام کی بجائے یوں لکھا جائے۔
(وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ) سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کا پیروکار ہو۔


اسلام کی دعوت یا کسی اور شرعی غرض سے قرآن مجید کی آیات لکھ دینا بھی جائز ہے۔
اس وجہ سے کے یہ کافر کے ہاتھ میں جایئں گی۔
آیات تحریر کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
الا یہ کہ خوب واضح ہو کہ وہ آیات قرآنیہ کی ہتک کریں گے۔
اس صورت میں یقیناً نہ لکھی جایئں۔
اور یہی مسئلہ قرآن مجید کا ہے۔
دعوت اسلام کی غرض سے کافر کو قرآن مجید دیا جا سکتا ہے۔


دعوت کے میدان کو حتیٰ الامکان پھیلانا چاہیے۔
اور تحریری میدان میں بھی یہ کارخیر سرانجام دیا جانا چاہیے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5136