سنن ابي داود
أَبْوَابُ النَّوْمِ -- ابواب: سونے سے متعلق احکام و مسائل
130. باب فِي بِرِّ الْوَالِدَيْنِ
باب: ماں باپ کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5138
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِي الْحَارِثُ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ، وَكُنْتُ أُحِبُّهَا، وَكَانَ عُمَرُ يَكْرَهُهَا، فَقَالَ لِي: طَلِّقْهَا، فَأَبَيْتُ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: طَلِّقْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ کو وہ ناپسند تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو، لیکن میں نے انکار کیا، تو عمر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے طلاق دے دو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الطلاق 13 (1189)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 36 (2088)، (تحفة الأشراف: 6701)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/20، 42، 53، 175) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2088  
´اگر باپ بیٹے کو کہے کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دیدو تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا، اور میرے والد اس کو برا جانتے تھے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں، چنانچہ میں نے اسے طلاق دے دی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2088]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عام طور پر والدین کو اولاد کی خوشی محبوب ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ اولاد کی خوشی کے لیےناگوار باتیں بھی برداشت کر لیتے ہیں۔
اس صورت میں اگر والدین اپنی بہو سے تنگ ہیں تو عموماً کوئی معقول وجہ ہوتی ہے۔
خاص طور پر والد بلا وجہ بیٹے کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ بیوی کو طلاق دے دے۔

(2)
والدین کی خوشی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھنا والدین سے حسن سلوک میں شامل ہے
(3)
اگر والدین اپنے بیٹے کو ناجائز طور پر یہ حکم دیتے ہیں کہ بیوی کو طلاق دے دو تو بہتر ہے ادب و احترام سے والدین کو اپنی بات سمجھانےکی کوشش کی جائے۔
اگر وہ پھر بھی اپنی رائے پر اصرار کریں تو ان کے حکم کی تعمیل کی جائے۔
والدین کو غلط حکم دینے کا گناہ ہو گا جب کہ بیٹے کو والدین کے حکم تعمیل کا ثواب ہو گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2088   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1189  
´باپ لڑکے سے کہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو تو کیا کرے؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی، میں اس سے محبت کرتا تھا، اور میرے والد اسے ناپسند کرتے تھے۔ میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں، لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی۔ پھر میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: عبداللہ بن عمر! تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1189]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ روایت اس بات پرواضح دلیل ہے کہ اگرباپ بیٹے کوحکم دے کہ وہ اپنی بیوی کوطلاق دے دے تو اسے طلاق دے دینی چاہئے گو وہ اسے بہت چاہتا ہواورماں،
باپ کے حکم میں بدرجہ اولیٰ داخل ہوگی اس لیے کہ بیٹے پر اس کا حق باپ سے بڑھ کر ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1189   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5138  
´ماں باپ کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ کو وہ ناپسند تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو، لیکن میں نے انکار کیا، تو عمر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے طلاق دے دو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5138]
فوائد ومسائل:
باپ کا یہ مقام اور حق ہے۔
کہ اگر وہ بیتے سے کہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔
تو اسے یہ حکم ماننا چاہیے، مگرشرط یہ ہے کہ باپ جو اپنے بیتے سے بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کررہا ہے۔
خود حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صفات کا حامل ہو۔
اور اس میں کوئی ہوائے نفس اور تعصب کی بات نہ ہو۔
صرف شرعی مصلحت پیش نظر ہو جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5138