سنن ابي داود
أبواب السلام -- ابواب: السلام علیکم کہنے کے آداب
149. باب فِي السَّلاَمِ عَلَى النِّسَاءِ
باب: عورتوں کو سلام کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5204
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ , سَمِعَهُ مِنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , يَقُولُ: أَخْبَرَتْهُ أَسْمَاءُ ابْنَةُ يَزِيدَ ," مَرَّ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نِسْوَةٍ , فَسَلَّمَ عَلَيْنَا".
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ انہیں اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ ہم عورتوں کے پاس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الاستئذان 9 (2697)، سنن ابن ماجہ/ الآداب 14 (3701)، (تحفة الأشراف: 15766)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/452، 457)، سنن الدارمی/الاستئذان 9 (2679) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اگر عورتوں کی جماعت ہے تو انہیں سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن عورت اگر اکیلی ہے اور سلام کرنے والا اس کے لئے محرم نہیں ہے تو (فتنہ کے خدشہ نہ ہونے کی صورت میں) سلام نہ کرنا بہتر ہے، تاکہ فتنہ وغیرہ سے محفوظ رہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3701  
´بچوں اور عورتوں کو سلام کرنے کا بیان۔`
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم عورتوں کے پاس گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3701]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
اگر فتنے کا خوف نہ ہو تو مرد نا محرم عورت کو اور عورت نا محرم مرد کو سلام کہہ سکتی ہے۔

(2)
فتنے کا خوف نہ ہونے کی صورت یہ ہےمثلاً:
عورت بوڑھی ہو یا کئی عورتیں موجود ہوں اور کوئی غلط فہمی پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو مرد انہیں سلام کہہ سکتا ہے۔

(3)
جوان عورت کا تنہا مرد کو یا مرد کا جوان عورت کو سلام کرنا خرابیاں پیدا ہونے کا باعث ہے، اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے البتہ محرم مرد اور عورت ایک دوسرے کو سلام کر سکتے ہیں بلکہ آپس میں سلام کرنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں نا مناسب خیالات پیدا ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3701   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5204  
´عورتوں کو سلام کرنے کا بیان۔`
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ انہیں اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ ہم عورتوں کے پاس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5204]
فوائد ومسائل:
اجنبی عورتوں کو جہاں فتنے اور شبہےکا اندیشہ ہو، سلام کہنا سنت ہے۔
بالخصوص قوم کے بڑوں اوربزرگوں کے لئے یہ ایک مستحب عمل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5204