سنن ابي داود
أبواب السلام -- ابواب: السلام علیکم کہنے کے آداب
168. باب فِي الرَّجُلِ يُنَادِي الرَّجُلَ فَيَقُولُ لَبَّيْكَ
باب: آدمی کسی کو پکارے تو اس کے جواب میں «لبيك» کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5233
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ , عَنْ أَبِي هَمَّامٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ , أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْفِهْرِيَّ , قَالَ:شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا , فَسِرْنَا فِي يَوْمٍ قَائِظٍ شَدِيدِ الْحَرِّ , فَنَزَلْنَا تَحْتَ ظِلِّ الشَّجَرَةِ , فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ , لَبِسْتُ لَأْمَتِي وَرَكِبْتُ فَرَسِي , فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي فُسْطَاطِهِ , فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ , قَدْ حَانَ الرَّوَاحُ , قَالَ: أَجَلْ , ثُمَّ قَالَ: يَا بِلَالُ , قُمْ فَثَارَ مِنْ تَحْتِ سَمُرَةٍ كَأَنَّ ظِلَّهُ ظِلُّ طَائِرٍ , فَقَالَ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَأَنَا فِدَاؤُكَ , فَقَالَ: أَسْرِجْ لِي الْفَرَسَ , فَأَخْرَجَ سَرْجًا دَفَّتَاهُ مِنْ لِيفٍ لَيْسَ فِيهِ أَشَرٌ وَلَا بَطَرٌ , فَرَكِبَ وَرَكِبْنَا" , وَسَاقَ الْحَدِيثَ , قَالَ أَبُو دَاوُدَ: أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْفِهْرِيُّ لَيْسَ لَهُ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثُ , وَهُوَ حَدِيثٌ نَبِيلٌ جَاءَ بِهِ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ.
ابوعبدالرحمٰن فہری کہتے ہیں کہ میں غزوہ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھا، ہم سخت گرمی کے دن میں چلے، پھر ایک درخت کے سایہ میں اترے، جب سورج ڈھل گیا تو میں نے اپنی زرہ پہنی اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس وقت آپ اپنے خیمہ میں تھے، میں نے کہا: «السلام عليك يا رسول الله ورحمة الله وبركاته»  کوچ کا وقت ہو چکا ہے، آپ نے فرمایا: ہاں، پھر آپ نے فرمایا: اے بلال! اٹھو، یہ سنتے ہی بلال ایک درخت کے نیچے سے اچھل کر نکلے ان کا سایہ گویا چڑے کے سایہ جیسا تھا ۱؎ انہوں نے کہا: «لبيك وسعديك وأنا فداؤك» میں حاضر ہوں، حکم فرمائیے، میں آپ پر فدا ہوں آپ نے فرمایا: میرے گھوڑے پر زین کس دو تو انہوں نے زین اٹھایا جس کے دونوں کنارے خرما کے پوست کے تھے، نہ ان میں تکبر کی کوئی بات تھی نہ غرور کی ۲؎ پھر آپ سوار ہوئے اور ہم بھی سوار ہوئے (اور چل پڑے) پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبدالرحمٰن فہری سے اس حدیث کے علاوہ اور کوئی حدیث مروی نہیں ہے اور یہ ایک عمدہ اور قابل قدر حدیث ہے جسے حماد بن سلمہ نے بیان کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 12067)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/286)، سنن الدارمی/السیر 16 (2496) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اشارہ ہے ان کے ضعف اور ان کی لاغری کی طرف۔
۲؎: جیسے دنیا داروں کی زین میں ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5233  
´آدمی کسی کو پکارے تو اس کے جواب میں «لبيك» کہنے کا بیان۔`
ابوعبدالرحمٰن فہری کہتے ہیں کہ میں غزوہ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھا، ہم سخت گرمی کے دن میں چلے، پھر ایک درخت کے سایہ میں اترے، جب سورج ڈھل گیا تو میں نے اپنی زرہ پہنی اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس وقت آپ اپنے خیمہ میں تھے، میں نے کہا: «السلام عليك يا رسول الله ورحمة الله وبركاته» کوچ کا وقت ہو چکا ہے، آپ نے فرمایا: ہاں، پھر آپ نے فرمایا: اے بلال! اٹھو، یہ سنتے ہی بلال ایک درخت کے نیچے سے اچھل کر نکلے ان کا سایہ گویا چڑے کے سایہ جیسا تھا ۱؎ انہوں نے کہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5233]
فوائد ومسائل:
لبیک اگرچہ ایک تعبدی کلمہ ہے، مگر جائز ہے کہ انسان کسی صاحب فضل کے بلانے پر اسے اس لفظ سے جواب دے۔
بعض محققین نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5233