سنن ابي داود
أبواب السلام -- ابواب: السلام علیکم کہنے کے آداب
175. باب فِي قَتْلِ الْحَيَّاتِ
باب: سانپوں کو مارنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5250
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ , قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ يَرْفَعُ الْحَدِيثَ فِيمَا أَرَى إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَرَكَ الْحَيَّاتِ مَخَافَةَ طَلَبِهِنَّ فَلَيْسَ مِنَّا , مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ حَارَبْنَاهُنَّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سانپوں کو ان کے انتقام کے ڈر سے چھوڑ دے یعنی انہیں نہ مارے وہ ہم میں سے نہیں ہے، جب سے ہماری ان سے لڑائی چھڑی ہے ہم نے ان سے کبھی بھی صلح نہیں کی ہے (وہ ہمیشہ سے موذی رہے ہیں اور موذی کا قتل ضروری ہے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 6221)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/230) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5250  
´سانپوں کو مارنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سانپوں کو ان کے انتقام کے ڈر سے چھوڑ دے یعنی انہیں نہ مارے وہ ہم میں سے نہیں ہے، جب سے ہماری ان سے لڑائی چھڑی ہے ہم نے ان سے کبھی بھی صلح نہیں کی ہے (وہ ہمیشہ سے موذی رہے ہیں اور موذی کا قتل ضروری ہے)۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5250]
فوائد ومسائل:

مذکورہ بالا دونوں روایتیں سندا ضعیف ہیں،تاہم معناصحیح ہیں جیساکہ تحقیق وتخریج میں وضاحت موجود ہے۔

2: صاحب ایمان کو جرات مند اور بہادر ہونا چاہیے اوراپنے دشمن سے خواہ وہ انسانی ہو یاحیوانی کسی طرح خوف زدہ نہیں رہنا چاہیے۔
بلکہ اللہ تعالی پر توکل کرنا چاہیے۔

3: اسی طرح ا ن کے بدلے سے بھی نہیں ڈرنا چاہیے۔

4: انسان اور سانپ کی دشمنی فطری اور جبلی ہے۔

5: سانپ سے ڈرنے والا اعلی درجے کے ایمان سے کم تر رہنا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5250