سنن ابي داود
أبواب السلام -- ابواب: السلام علیکم کہنے کے آداب
175. باب فِي قَتْلِ الْحَيَّاتِ
باب: سانپوں کو مارنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5252
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" اقْتُلُوا الْحَيَّاتِ , وَذَا الطُّفْيَتَيْنِ , وَالْأَبْتَرَ , فَإِنَّهُمَا يَلْتَمِسَانِ الْبَصَرَ , وَيُسْقِطَانِ الْحَبَلَ" , قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقْتُلُ كُلَّ حَيَّةٍ وَجَدَهَا , فَأَبْصَرَهُ أَبُو لبابةَ أَوْ زَيْدُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ يُطَارِدُ حَيَّةً , فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ نُهِيَ عَنْ ذَوَاتِ الْبُيُوتِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سانپوں کو مار ڈالو، دو دھاریوں والوں کو بھی اور دم کٹے سانپوں کو بھی، کیونکہ یہ دونوں بینائی کو زائل کر دیتے اور حمل کو گرا دیتے ہیں (زہر کی شدت سے)، سالم کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جس سانپ کو بھی پاتے مار ڈالتے، ایک بار ابولبابہ یا زید بن الخطاب نے ان کو ایک سانپ پر حملہ آور دیکھا تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/بدء الخلق 14 (3297)، صحیح مسلم/السلام 37 (2233)، (تحفة الأشراف: 12147)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطب 42 (3535)، موطا امام مالک/الاستئذان 12 (32)، مسند احمد (3/430، 452، 453) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ وہ جن و شیاطین بھی ہو سکتے ہیں، انہیں مارنے سے پہلے وہاں سے غائب ہو جانے یا اپنی شکل تبدیل کر لینے کی تین بار آگاہی دے دینی چاہئے اگر وہ وہاں سے غائب نہ ہو پائیں یا اپنی شکل نہ بدلیں تو دوسری روایات کی روشنی میں مار سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3535  
´دو دھاری سانپ کو قتل کر دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سانپوں کو مار ڈالو، دو دھاری اور دم کٹے سانپ کو ضرور مارو، اس لیے کہ یہ دونوں آنکھ کی بینائی زائل کر دیتے اور حمل کو گرا دیتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3535]
اردو حاشہ:
فوائد  ومسائل:

(1)
لکیروں والے سانپ سے مراد ایک خاص قسم کا سانپ ہے جس کی پیٹھ پر دو لکیریں ہوتی ہیں۔

(2)
دم کٹے سانپ سے مراد وہ سانپ ہے جس کی دم دوسرے سانپوں کی طرح مخروطی نہیں ہوتی بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے۔
جیسے دم کاٹ دی گئی ہو۔

(3)
یہ سانپ زیادہ زہریلے ہوتے ہیں۔
ان کے کاٹنے سے آدمی کی بینائی ختم ہوسکتی ہے۔
اور عورت کا حمل ساقط ہوسکتا ہے۔

(4)
سانپ کی بہت سی قسمیں زہریلی نہیں ہوتیں انہیں مارنا ضروری نہیں۔

(5)
گھر میں سانپ نظر آئے تو اسے تنبیہ کرنی چاہیے۔
کہ چلا جا ورنہ ہم تجھے مار دیں گے۔ (صحیح مسلم، السلام، باب قتل الحیات وغیرھا، حدیث: 2236)
اگر وہ جن ہوگا توچلا جائےگا۔
ورنہ اسے ماردیا جائے۔

(6)
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے۔ (حرجواعلیھا ثلاثا)
(حوالہ مذکورہ بالا)
اس کی تشریح دوطرح سے کی گئی ہے۔
ایک یہ کہ اسے تین بار تنبیہ کرو۔
اگر اس کے بعد بھی نظر آئے تو ماردو۔ (فتح الباری: 6/ 420)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3535   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1483  
´سانپ مارنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سانپوں کو مارو، خاص طور سے اس سانپ کو مارو جس کی پیٹھ پہ دو (کالی) لکیریں ہوتی ہیں اور اس سانپ کو جس کی دم چھوٹی ہوتی ہے اس لیے کہ یہ دونوں بینائی کو زائل کر دیتے ہیں اور حمل کو گرا دیتے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1483]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ان دونوں میں ایسا زہر ہوتا ہے کہ انہیں دیکھنے والا نابینا ہوجاتا ہے اور حاملہ کا حمل گر جاتا ہے۔

2؎:
یہ ممانعت اس لیے ہے کہ یہ جن وشیاطین بھی ہوسکتے ہیں،
انہیں مارنے سے پہلے وہاں سے غائب ہوجانے یا اپنی شکل تبدیل کرلینے کی تین بارآگاہی دے دینی چاہئے،
اگروہ وہاں سے غائب نہ ہو پائیں یا اپنی شکل نہ بدلیں تووہ ابوسعید خدری سے مروی حدیث کی روشنی میں انہیں مار سکتے ہیں۔

3؎:
زید بن خطاب عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہما) کے بڑے بھائی ہیں،
یہ عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے اسلام لائے،
بدر اور دیگر غزوات میں شریک رہے،
ان سے صرف ایک حدیث گھروں میں ر ہنے والے سانپوں کو نہ مارنے سے متعلق آئی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1483