سنن ابي داود
أبواب السلام -- ابواب: السلام علیکم کہنے کے آداب
175. باب فِي قَتْلِ الْحَيَّاتِ
باب: سانپوں کو مارنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5257
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ , عَنْ صَيْفِيٍّ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى الْأَنْصَارِ , عَنْ أَبِي السَّائِبِ , قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ , فَبَيْنمَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدُهُ , سَمِعْتُ تَحْتَ سَرِيرِهِ تَحْرِيكَ شَيْءٍ , فَنَظَرْتُ فَإِذَا حَيَّةٌ , فَقُمْتُ , فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: مَا لَكَ؟ قُلْتُ: حَيَّةٌ هَاهُنَا , قَالَ: فَتُرِيدُ مَاذَا؟ قُلْتُ: أَقْتُلُهَا , فَأَشَارَ إِلَى بَيْتٍ فِي دَارِهِ تِلْقَاءَ بَيْتِهِ , فَقَالَ:" إِنَّ ابْنَ عَمٍّ لي كَانَ فِي هَذَا الْبَيْتِ , فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْأَحْزَابِ اسْتَأْذَنَ إِلَى أَهْلِهِ , وَكَانَ حَدِيثَ عَهْدٍ بِعُرْسٍ , فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَذْهَبَ بِسِلَاحِهِ , فَأَتَى دَارَهُ فَوَجَدَ امْرَأَتَهُ قَائِمَةً عَلَى باب الْبَيْتِ , فَأَشَارَ إِلَيْهَا بِالرُّمْحِ , فَقَالَتْ: لَا تَعْجَلْ حَتَّى تَنْظُرَ مَا أَخْرَجَنِي , فَدَخَلَ الْبَيْتَ فَإِذَا حَيَّةٌ مُنْكَرَةٌ , فَطَعَنَهَا بِالرُّمْحِ , ثُمَّ خَرَجَ بِهَا فِي الرُّمْحِ تَرْتَكِضُ , قَالَ: فَلَا أَدْرِي أَيُّهُمَا كَانَ أَسْرَعَ مَوْتًا الرَّجُلُ أَوِ الْحَيَّةُ , فَأَتَى قَوْمُهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالُوا: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَرُدَّ صَاحِبَنَا , فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوا لِصَاحِبِكُمْ , ثُمَّ قَالَ: إِنَّ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ أَسْلَمُوا بِالْمَدِينَةِ , فَإِذَا رَأَيْتُمْ أَحَدًا مِنْهُمْ فَحَذِّرُوهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , ثُمَّ إِنْ بَدَا لَكُمْ بَعْدُ أَنْ تَقْتُلُوهُ فَاقْتُلُوهُ بَعْدَ الثَّلَاثِ".
ابوسائب کہتے ہیں کہ میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اسی دوران کہ میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا ان کی چارپائی کے نیچے مجھے کسی چیز کی سر سراہٹ محسوس ہوئی، میں نے (جھانک کر) دیکھا تو (وہاں) سانپ موجود تھا، میں اٹھ کھڑا ہوا، ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا ہوا تمہیں؟ (کیوں کھڑے ہو گئے) میں نے کہا: یہاں ایک سانپ ہے، انہوں نے کہا: تمہارا ارادہ کیا ہے؟ میں نے کہا: میں اسے ماروں گا، تو انہوں نے اپنے گھر میں ایک کوٹھری کی طرف اشارہ کیا اور کہا: میرا ایک چچا زاد بھائی اس گھر میں رہتا تھا، غزوہ احزاب کے موقع پر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اہل کے پاس جانے کی اجازت مانگی، اس کی ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی اور حکم دیا کہ وہ اپنے ہتھیار کے ساتھ جائے، وہ اپنے گھر آیا تو اپنی بیوی کو کمرے کے دروازے پر کھڑا پایا، تو اس کی طرف نیزہ لہرایا (چلو اندر چلو، یہاں کیسے کھڑی ہو) بیوی نے کہا، جلدی نہ کرو، پہلے یہ دیکھو کہ کس چیز نے مجھے باہر آنے پر مجبور کیا، وہ کمرے میں داخل ہوا تو ایک خوفناک سانپ دیکھا تو اسے نیزہ گھونپ دیا، اور نیزے میں چبھوئے ہوئے اسے لے کر باہر آیا، وہ تڑپ رہا تھا، ابوسعید کہتے ہیں، تو میں نہیں جان سکا کہ کون پہلے مرا آدمی یا سانپ؟ (گویا چبھو کر باہر لانے کے دوران سانپ نے اسے ڈس لیا تھا، یا وہ سانپ جن تھا اور جنوں نے انتقاماً اس کا گلا گھونٹ دیا تھا) تو اس کی قوم کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ ہمارے آدمی (ساتھی) کو لوٹا دے، (زندہ کر دے) آپ نے فرمایا: اپنے آدمی کے لیے مغفرت کی دعا کرو (اب زندگی ملنے سے رہی) پھر آپ نے فرمایا: مدینہ میں جنوں کی ایک جماعت مسلمان ہوئی ہے، تم ان میں سے جب کسی کو دیکھو (سانپ وغیرہ موذی جانوروں کی صورت میں) تو انہیں تین مرتبہ ڈراؤ کہ اب نہ نکلنا ورنہ مارے جاؤ گے، اس تنبیہ کے باوجود اگر وہ غائب نہ ہو اور تمہیں اس کا مار ڈالنا ہی مناسب معلوم ہو تو تین بار کی تنبیہ کے بعد اسے مار ڈالو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/السلام 37 (2236)، سنن الترمذی/الصید 15 (1484)، موطا امام مالک/الاستئذان 12 (33)، (تحفة الأشراف: 4413)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/41) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح