سنن ابن ماجه
كتاب السنة -- کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
2. بَابُ : تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ
باب: حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔
حدیث نمبر: 18
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ ، حَدَّثَنِي بُرْدُ بْنُ سِنَانٍ ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ قَبِيصَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ الْأَنْصَارِيَّ النَّقِيبَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَزَا مَعَ مُعَاوِيَةَ أَرْضَ الرُّومِ، فَنَظَرَ إِلَى النَّاسِ وَهُمْ يَتَبَايَعُونَ كِسَرَ الذَّهَبِ بِالدَّنَانِيرِ، وَكِسَرَ الْفِضَّةِ بِالدَّرَاهِمِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ الرِّبَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا تَبْتَاعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ لَا زِيَادَةَ بَيْنَهُمَا وَلَا نَظِرَةَ" فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: يَا أَبَا الْوَلِيدِ لَا أَرَى الرِّبَا فِي هَذَا إِلَّا مَا كَانَ مِنْ نَظِرَةٍ، فَقَالَ عُبَادَةُ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُحَدِّثُنِي عَنْ رَأْيِكَ، لَئِنْ أَخْرَجَنِي اللَّهُ لَا أُسَاكِنُكَ بِأَرْضٍ لَكَ عَلَيَّ فِيهَا إِمْرَةٌ، فَلَمَّا قَفَلَ لَحِقَ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَا أَقْدَمَكَ يَا أَبَا الْوَلِيدِ؟ فَقَصَّ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، وَمَا قَالَ مِنْ مُسَاكَنَتِهِ، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا الْوَلِيدِ إِلَى أَرْضِكَ، فَقَبَحَ اللَّهُ أَرْضًا لَسْتَ فِيهَا، وَأَمْثَالُكَ وَكَتَبَ إِلَى مُعَاوِيَةَ: لَا إِمْرَةَ لَكَ عَلَيْهِ، وَاحْمِلِ النَّاسَ عَلَى مَا قَالَ فَإِنَّهُ هُوَ الْأَمْرُ.
قبیصہ سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سر زمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا: لوگو! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ۱؎، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ابوالولید! میری رائے میں تو یہ سود نہیں ہے، یعنی نقدا نقد میں تفاضل (کمی بیشی) جائز ہے، ہاں اگر ادھار ہے تو وہ سود ہے، عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ سے حدیث رسول بیان کر رہا ہوں اور آپ اپنی رائے بیان کر رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں سے صحیح سالم نکال دیا تو میں کسی ایسی سر زمین میں نہیں رہ سکتا جہاں میرے اوپر آپ کی حکمرانی چلے، پھر جب وہ واپس لوٹے تو مدینہ چلے گئے، تو ان سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ابوالولید! مدینہ آنے کا سبب کیا ہے؟ تو انہوں نے ان سے پورا واقعہ بیان کیا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کے زیر انتظام علاقہ میں نہ رہنے کی جو بات کہی تھی اسے بھی بیان کیا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوالولید! آپ اپنی سر زمین کی طرف واپس لوٹ جائیں، اللہ اس سر زمین میں کوئی بھلائی نہ رکھے جس میں آپ اور آپ جیسے لوگ نہ ہوں، اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ عبادہ پر آپ کا حکم نہیں چلے گا، آپ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ عبادہ کی بات پر چلیں کیونکہ شرعی حکم دراصل وہی ہے جو انہوں نے بیان کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5106، ومصباح الزجاجة: 6)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساقاة 15 (1587)، سنن ابی داود/البیوع 12 (3349)، سنن الترمذی/البیوع 23 (1240)، سنن النسائی/البیوع 42 (4567)، مسند احمد (5/314)، سنن الدارمی/البیوع 41 (2554)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2254) (صحیح)» ‏‏‏‏ (بوصیری کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اصل صحیحین میں عبادہ رضی اللہ عنہ سے قصہ مذکورہ کے بغیرمروی ہے، اور اس کی صورت مرسل ومنقطع کی ہے کہ قبیصہ کو قصہ نہیں ملا، امام مزی کہتے ہیں: قبیصہ کی ملاقات عبادہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی)

وضاحت: ۱؎: یعنی ایک ہاتھ لو اور دوسرے ہاتھ دو۔ عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالولید ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث18  
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
قبیصہ سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سر زمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا: لوگو! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ۱؎، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 18]
اردو حاشہ:
(1)
سونے کا سونے سے، یا چاندی کا چاندی سے تبادلہ صرف اسی صورت میں جائز ہے جب دونوں طرف مقدار برابر ہو اور دونوں فریق بیک وقت ادائیگی کر دیں۔
البتہ سونے کا تبادلہ چاندی سے کیا جائے تو دونوں کی مقدار برابر ہونے کی شرط نہیں، تاہم دونوں طرف سے ادائیگی ایک ہی مجلس میں ہو جانی چاہیے۔
اسی پر قیاس کر کے کہا جا سکتا ہے کہ پرانے کرنسی نوٹوں کا نئے نوٹوں سے تبادلہ بھی انہی شروط کے ساتھ جائز ہے۔
مثلا سو روپے کے نئے نوٹوں کے بدلے ایک سو دس روپے کے پرانے نوٹ لینا دینا جائز نہیں۔

(2)
حدیث نبوی کے مقابلے میں کسی کی رائے معتبر نہیں، اگرچہ وہ ایک صحابی کی رائے ہو۔
تاہم ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک صحابی نے حدیث سے ایک مطلب سمجھا ہے، دوسرے صحابی کی رائے میں اس سے وہ مسئلہ نہیں نکلتا یا دوسری حدیث کو راجح سمجھتا ہے۔
اس صورت میں دونوں آراء کو سامنے رکھ کر غو ر کیا جا سکتا ہے کہ کون سا قول زیادہ صحیح ہے۔
اس اجتہاد میں اگر غلطی ہو جائے تو عنداللہ معاف ہے۔

(3)
صحابہ کرام کی نظر میں حدیث کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ حدیث سے ہٹ کر ایک رائے ظاہر کی گئی تو صحابی رسول اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے وہ علاقہ ہی چھوڑ دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اس جذبہ کی قدر کی حتیٰ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دے دیا کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ تمہارے ماتحت نہیں ہوں گے۔

(4)
جب کسی مسئلہ میں صحابہ رضی اللہ عنھم کی مختلف آراء ہوں تو وہ رائے زیادہ قابل قبول ہو گی جس کی تائید قرآن و حدیث سے ہو جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں آراء معلوم ہونے پر اس قول کو ترجیح دی جو فرمان نبوی سے ثابت تھا اور اسے قانونا نافذ کر دیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 18