سنن ابن ماجه
كتاب السنة -- کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
2. بَابُ : تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ
باب: حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔
حدیث نمبر: 21
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ ، حَدَّثَنَا الْمَقْبُرِيُّ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" لَا أَعْرِفَنَّ مَا يُحَدَّثُ أَحَدُكُمْ عَنِّي الْحَدِيثَ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ، فَيَقُولُ: اقْرَأْ قُرْآنًا، مَا قِيلَ مِنْ قَوْلٍ حَسَنٍ فَأَنَا قُلْتُهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں یہ ہرگز نہ پاؤں کہ تم میں سے کسی سے میری حدیث بیان کی جا رہی ہو اور وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے یہ کہتا ہو: قرآن پڑھو، سنو! جو بھی اچھی بات کہی گئی ہے وہ میری ہی کہی ہوئی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14336) (ضعیف جدًا) (سند میں عبد اللہ بن سعید المقبری متروک روای ہیں)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: منكر
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث21  
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں یہ ہرگز نہ پاؤں کہ تم میں سے کسی سے میری حدیث بیان کی جا رہی ہو اور وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے یہ کہتا ہو: قرآن پڑھو، سنو! جو بھی اچھی بات کہی گئی ہے وہ میری ہی کہی ہوئی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 21]
اردو حاشہ:
(1)
یہ روایت سخت ضعیف ہے۔
اس کے آخری جملے کی تردید عشرہ مبشرہ صحابہ رضی اللہ عنھم سے مروی اس متواتر حدیث سے ہوتی ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
جس نے جان بوجھ کر جھوٹی بات (اپنے پاس سے بنا کر)
میرے ذمہ لگائی، اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لینا چاہیے (وہ جہنمی ہے۔)
(صحيح البخاري، العلم، باب اثم من كذب علي النبي صلي الله عليه وسلم، حديث: 110)
اس لیے جو بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی، اسے آپ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ وہ بات فی نفسہ اچھی ہی ہو، البتہ اس حدیث کے پہلے حصے کی تائید اس باب کی پہلی اور دوسری حدیث (حدیث نمبر 12 اور 13)
سے ہوتی ہے۔

(2)
ضعیف حدیث وہ ہے جس میں صحیح اور حسن حدیث کی شرائط نہ پائی جاتی ہوں۔
ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں علماء کی تین آراء ہیں:

(ا)
جمہور محدثین، محققین اور محتاط علمائے کرام ضعیف حدیث کو قابل حجت اور قابل عمل نہیں مانتے، خواہ اس کا تعلق احکام سے ہو یا فضائل اعمال سے۔

(ب)
کچھ محدثین اور علمائے کرام فضائل اعمال اور ترغیب و ترہیب میں ضعیف حدیث کو قبول کرلیتے ہیں۔

(ج)
جبکہ ایسے علماء بھی ہیں جو فضائل اعمال میں چند شرائط کے ساتھ ضعیف حدیث کو قبول کرتے ہیں۔
مثلا:

           (1)
وہ ضعیف حدیث شدید ضعیف نہ ہو۔

           (2)
وہ حدیث کسی عام کے تحت داخل ہو۔

          (3)
اس پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا یقین نہ رکھا جائے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات منسوب نہ ہو جائے جسے آپ نے ارشاد نہیں فرمایا۔
لیکن ان شرائط پر عمل نہایت مشکل ہے، لہذا دیانت و احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیف حدیث کو قبول نہ کیا جائے۔
وَاللهُ أَعلَمُ
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 21