سنن ابن ماجه
كتاب السنة -- کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
4. بَابُ : التَّغْلِيظِ فِي تَعَمُّدِ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان بوجھ کر جھوٹ گھڑنے پر سخت گناہ (جہنم) کی وعید۔
حدیث نمبر: 30
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى ، قَالُوا: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ گھڑا تو اس کو چاہیئے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9368)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الفتن 70 (2257)، العلم 8 (2659)، مسند احمد (1/389، 393، 401، 436، 449) (وأولہ: إنکم منصورون....) (صحیح متواتر)» ‏‏‏‏ (اس سند میں شریک بن عبداللہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شعبہ و سفیان نے ان کی متابعت کی ہے، اور ترمذی نے اس کو حسن صحیح کہا ہے)

وضاحت: ۱؎: چاہے اس سے کوئی نیک مقصد ہی کیوں نہ ہو، جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کی قید سے وہ شخص اس وعید سے نکل گیا ہے جس نے غلطی سے یا بھول سے کوئی بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث30  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان بوجھ کر جھوٹ گھڑنے پر سخت گناہ (جہنم) کی وعید۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ گھڑا تو اس کو چاہیئے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 30]
اردو حاشہ:
(1)
جھوٹ باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے پاس سے کوئی بات بنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دے اور اسے حدیث کے طور پر پیش کرے۔
یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

(2)
اسی سے محدثین نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ جب کسی موقع پر کوئی ضعیف حدیث بیان کرنے کی ضرورت پڑے تو سامعین کو بتا دیا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
اس سے استدلال درست نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ضعیف حدیث کے متعلق یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ واقعی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے یا راوی نے غلطی سے اس طرح بیان کر دی ہے۔

(3)
جہنم کی آگ میں ٹھکانہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔
اسے یقین کر لینا چاہیے کہ اس کے اس گناہ کی وجہ سے جہنم میں اس کے لیے جگہ متعین ہو چکی ہے، لیکن اگر وہ توبہ کر لے اور سب کو بتا دے کہ اس کی بیان کردہ فلاں فلاں حدیث خود ساختہ ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اس کا گناہ معاف ہو جائے گا۔
تاہم محدثین اس کے بعد بھی اس کی روایت قبول نہیں کرتے۔

(4)
یہ حدیث (مُتَوَاتِر)
ہے۔
حافظ ابن صلاح رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اسے باسٹھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 30   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2659  
´رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی طرف جھوٹی بات کی نسبت کرنا گناہ عظیم ہے۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2659]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا گناہ عظیم ہے،
اسی لئے ضعیف اور موضوع روایات کا علم ہو جانے کے بعد انہیں بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے،
یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آپ ﷺ کی طرف جھوٹی بات کی نسبت آپ پر جھوٹ باندھتے ہوئے کی جائے یا آپ کے لیے کی جائے دونوں صورتیں گناہ عظیم کا باعث ہیں،
اس سے ان لوگوں کے باطل افکار کی تردید ہو جاتی ہے جو عبادت کی ترغیب کے لیے فضائل کے سلسلہ میں وضع احادیث کے جواز کے قائل ہیں،
اللہ رب العالمین ایسے فتنے سے ہمیں محفوظ رکھے،
آمین۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2659