سنن ابن ماجه
كتاب السنة -- کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
10. بَابٌ في الْقَدَرِ
باب: قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔
حدیث نمبر: 83
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ إِسْمَاعِيل الْمَخْزُومِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:" جَاءَ مُشْرِكُو قُرَيْشٍ يُخَاصِمُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَدَرِ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ {48} إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ {49} سورة القمر آية 48-49.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکین قریش نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے تقدیر کے سلسلے میں جھگڑنے لگے، تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «يوم يسحبون في النار على وجوههم ذوقوا مس سقر إنا كل شيء خلقناه بقدر» یعنی: جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا: جہنم کی آگ لگنے کے مزے چکھو، بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے پر پیدا کیا ہے (سورۃ القمر: ۴۹) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/القدر 4 (2656)، سنن الترمذی/القدر 19 (2157)، (تحفة الأشراف: 14589)، مسند احمد (2/444، 476) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بغوی نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ جو چیز ہم نے پیدا کی ہے وہ تقدیر سے ہے یعنی وہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے، حسن بصری نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہر چیز کا اندازہ کیا کہ اس کے موافق وہ پیدا ہوتی ہے، اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیر لکھی، اور فرمایا: رب العالمین کا عرش اس وقت پانی پر تھا، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز قدر سے ہے یہاں تک کہ نادانی و دانائی بھی، فتح البیان میں ہے کہ اثبات قدر سے جو بعضوں کے خیال میں آتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کا مجبور و مقہور کر دینا ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے علم قدیم کی خبر ہے کہ بندے کیا کمائیں گے، اور ان کے افعال کا صدور خیر ہو یا شر اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث83  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکین قریش نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے تقدیر کے سلسلے میں جھگڑنے لگے، تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «يوم يسحبون في النار على وجوههم ذوقوا مس سقر إنا كل شيء خلقناه بقدر» یعنی: جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا: جہنم کی آگ لگنے کے مزے چکھو، بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے پر پیدا کیا ہے (سورۃ القمر: ۴۹) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 83]
اردو حاشہ:
(1)
اس آیت اور حدیث سے بھی تقدیر کا ثبوت ملتا ہے۔

(2)
کفار کے لیے جہنم کا سخت عذاب مقدر ہے۔

(3)
واضح اور قطعی مسئلے میں اختلاف اور بحث کرنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 83   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2157  
´تقدیر سے متعلق ایک اور باب۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مشرکین قریش تقدیر کے بارے میں جھگڑتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو یہ آیت نازل ہوئی «يوم يسحبون في النار على وجوههم ذوقوا مس سقر إنا كل شيء خلقناه بقدر» یعنی جس دن وہ جہنم میں منہ کے بل گھسیٹے جائیں گے (تو ان سے کہا جائے گا) تم لوگ جہنم کا مزہ چکھو، ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیدا کیا ہے (القمر: ۴۸-۴۹)۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2157]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جس دن وہ جہنم میں منہ کے بل گھسیٹے جائیں گے (تواُن سے کہا جائے گا) تم لوگ جہنم کامزہ چکھو،
ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیداکیا ہے۔
(القمر: 48، 49)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2157