سنن ابن ماجه
كتاب السنة -- کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
10. بَابٌ في الْقَدَرِ
باب: قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔
حدیث نمبر: 84
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَذَكَرَ لَهَا شَيْئًا مِنَ الْقَدَرِ، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ تَكَلَّمَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْقَدَرِ سُئِلَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِيهِ لَمْ يُسْأَلْ عَنْهُ".
عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے تقدیر کے سلسلے میں کچھ ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو تقدیر کے سلسلے میں ذرا بھی بحث کرے گا اس سے قیامت کے دن اس سلسلے میں سوال کیا جائے گا، اور جو اس سلسلہ میں کچھ نہ کہے تو اس سے سوال نہیں ہو گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16265، ومصباح الزجاجة: 28) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں واقع دو راوی یحییٰ بن عثمان منکر الحدیث اور یحییٰ بن عبد اللہ لین الحدیث ہیں، ملاحظہ: المشکاة: 114)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 114  
´مسئلہ تقدیر پر گفتگو ایک نا پسندیدہ امر`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ تَكَلَّمَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْقَدَرِ سُئِلَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِيهِ لم يسْأَل عَنهُ» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص تقدیر کے معاملے میں کچھ گفتگو کرے گا تو قیامت کے دن اس سے پوچھا جائے گا (کہ کیوں تقدیر کے معاملے میں بحث و کرید کیا ہے، جب کہ اس کے بارے میں علم نہیں تھا۔) اور جس نے نہیں کلام کیا اور وہ خاموش رہا تو اس سے باز پرش نہ ہو گی۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 114]

تخریج الحدیث:
[سنن ابن ماجه 84]

تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
● اسے ابوبکر الآجری نے بھی کتاب الشریعہ [ص235 ح531] میں یحییٰ بن عثمان کی سند سے بیان کیا ہے۔
◄ اس کا راوی یحییٰ بن عثمان التیمی القرشی ابوسہل البصری ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب: 7606]
◄ علامہ بوصیری نے کہا کہ اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ [زوائد ابن ماجه: 84]
◄ یحییٰ بن عثمان کا استاد یحییٰ بن عبداللہ بن ابی ملیکہ لین الحدیث (ضعیف) ہے۔ [تقريب التهذيب: 7587]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 114   
قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الْقَطَّانُ: حَدَّثَنَاهُ حَازِمُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شَيْبَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ
ابوالحسن القطان نے کہا: ہمیں خازم بن یحیٰی نے انہیں عبدالملک بن سنان نے انہیں یحیٰی بن عثمان نے اسی (مالک بن اسماعیل) کی مثل روایت بیان کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سبب ضعف کے لئے ملاحظہ ہو: اس سے پہلے کی حدیث)

قال الشيخ الألباني: ضعيف