سنن ابن ماجه
كتاب السنة -- کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
10. بَابٌ في الْقَدَرِ
باب: قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔
حدیث نمبر: 86
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي حَيَّةَ أَبُو جَنَابٍ الْكَلْبِيُّ ، عَنِ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَدْوَى، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَةَ"، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ الْبَعِيرَ يَكُونُ بِهِ الْجَرَبُ فَيُجْرِبُ الْإِبِلَ كُلَّهَا؟ قَالَ:" ذَلِكُمُ الْقَدَرُ فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں چھوا چھوت کی بیماری، بدفالی اور الو سے بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ایک دیہاتی شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اونٹ کو (کھجلی) ہوتی ہے، اور پھر اس سے تمام اونٹوں کو کھجلی ہو جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی تقدیر ہے، اگر ایسا نہیں تو پہلے اونٹ کو کس نے اس میں مبتلا کیا؟ ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8580، مصباح الزجاجة: 30)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/24، 222) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں یحییٰ بن أبی حیہ ابو جناب الکلبی ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے، صرف ''ذلكم القدر'' کا لفظ شاہد نہ ملنے کی بناء پر ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 782، و الضعیفة: 4808)

وضاحت: ۱؎: چھوا چھوت کی بیماری کو عربی میں  «عدوى»: کہتے ہیں یعنی ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جائے، اور زمانہ جاہلیت میں عربوں کا عقیدہ تھا کہ کھجلی وغیرہ بعض امراض ایک دوسرے کو لگ جاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدہ کو باطل قرار دیا، اور فرمایا کہ یہ تقدیر سے ہے، جیسے پہلے اونٹ کو کسی کی کھجلی نہیں لگی، بلکہ یہ تقدیر الہٰی ہے، اسی طرح اور اونٹوں کی کھجلی بھی ہے۔ «طيرة»: بدفالی اور بدشگونی کو کہتے ہیں جیسے عورتیں کہتی ہیں کہ یہ کپڑا میں نے کس منحوس کے قدم سے لگایا کہ تمام ہی نہیں ہوتا، یا گھر سے نکلے اور بلی سامنے آ گئی، یا کسی نے چھینک دیا تو بیٹھ گئے، یا کوئی چڑیا آگے سے گزر گئی تو اب اگر جائیں گے تو کام نہ ہو گا، اس اعتقاد کو بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باطل فرما دیا، اور اس کو شرک قرار دیا۔ «هامة»: ایک معروف و مشہور جانور ہے جسے الو کہتے ہیں، عرب اس سے بدفالی لیتے تھے، اور کفار و مشرکین کا آج بھی عقیدہ ہے کہ وہ جہاں بولتا ہے وہ گھر ویران اور برباد ہو جاتا ہے، اور بعض عربوں نے سمجھ رکھا تھا کہ میت کی ہڈیاں سڑ کر الو بن جاتی ہیں، یہ تفسیر اکثر علماء نے کی ہے، غرض جاہل لوگ جو ان چیزوں کو خیر و شر کا مصدر و منبع جانتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس اعتقاد کا رد و ابطال کر کے خیر و شر کا مصدر تقدیر الٰہی کو بتایا، اور مسلمان کو یہی عقیدہ رکھنا چاہئے کہ نفع و نقصان اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله ذلكم القدر
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث86  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں چھوا چھوت کی بیماری، بدفالی اور الو سے بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ایک دیہاتی شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اونٹ کو (کھجلی) ہوتی ہے، اور پھر اس سے تمام اونٹوں کو کھجلی ہو جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی تقدیر ہے، اگر ایسا نہیں تو پہلے اونٹ کو کس نے اس میں مبتلا کیا؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 86]
اردو حاشہ:
(1)
عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ اگر کسی بیمار کے پاس کوئی تندرست آدمی اٹھتا بیٹھتا ہے یا اس کے ساتھ کھاتا پیتا ہے یا اس کا لباس استعمال کرتا ہے تو اسے بھی وہی بیماری لگ جاتی ہے جو مریض کو تھی۔
عرف عام میں ایسی بیماریوں کو متعدی بیماریاں کہا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بیماری اس طرح ایک سے دوسرے کو نہیں لگتی، البتہ ایسا ہو سکتا ہے کہ جس وجہ سے پہلے آدمی کے جسم میں مرض پیدا ہوا ہے، وہی وجہ کسی اور شخص میں بھی پائی جائے اور وہ بھی بیمار ہو جائے۔
جدید طب میں جراثیم کا نظریہ بہت مقبول ہے لیکن یہ جراثیم بھی بحکم الہی اثر انداز ہوتے ہیں، گویا دوسرے مریض کے بیمار ہونے کی اصل وجہ حکم باری تعالیٰ ہے نہ کہ مریض کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا۔
اس کے علاوہ ہومیو پیتھک نظریہ علاج جراثیم کو امراض کا سبب ہی تسلیم نہیں کرتا، اس لیے اس نظریے کے مطابق بھی مریض کا ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہونا ایک غلط تصور ہے۔

(2)
عرب لوگ پرندوںاور جنگلی جانوروں کے گزرنے سے شگون لیتے تھے۔
کوئی شخص کوئی کام کرنا چاہتا تو کسی بیٹھے ہوئے پرندے یا ہرن وغیرہ کو پتھر مار کر بھگاتا، اگر وہ دائیں جانب جاتا تو سمجھا جاتا کہ کام صحیح ہو جائے گا، اگر بائیں طرف جاتا تو سمجھا جاتا کہ کامیابی نہیں ہو گی۔
اس طرح کے کام محض توہم پرستی کا مظہر ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
آج کل بھی اس طرح کے توہمات پائے جاتے ہیں، مثلا:
کسی لنگڑے یا یک چشم انسان سے ملاقات ہو جائے تو اسے نحوست کا باعث قرار دینا۔
کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو سمجھنا کہ کام نہیں ہو گا یا کسی خاص عدد (مثلا تیرہ کا عدد)
یا کسی خاص دن (مثلا منگل)
یا کسی خاص مہینہ (مثلا ماہ صفر یا شوال)
کو نامبارک قرار دینا بھی اسی میں شامل ہے۔
کوئی نقش بنا کر اس کے خانوں میں انگلی رکھنا یا اس قسم کے فال ناموں سے قسمت معلوم کرنے کی کوشش کرنا سب ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔

(3)
مشرکین عرب میں ایک غلط تصور یہ بھی پایا جاتا تھا کہ اگر متقول کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی روح اُلو کی شکل اختیار کر کے بٹھکتی اور چیختی پھرتی ہے اور انتقام کا مطالبہ کرتی ہے۔
اس غلط تصور کی وجہ سے ان لوگوں میں نسل در نسل انتقام اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہتا تھا، حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی، اسی طرح اُلو کو منحوس تصور کرنا غلط ہے۔
وہ بھی دوسری مخلوقات کی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے جس کا انسانوں کی قسمت سے کوئی تعلق نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 86