سنن ابن ماجه
كتاب السنة -- کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
10. بَابٌ في الْقَدَرِ
باب: قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔
حدیث نمبر: 88
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ يَزِيدَ الرِّقَاشِيِّ ، عَنْ غُنَيْمِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلُ الْقَلْبِ مَثَلُ الرِّيشَةِ تُقَلِّبُهَا الرِّيَاحُ بِفَلَاةٍ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دل کی مثال اس پر کی طرح ہے جسے ہوائیں میدان میں الٹ پلٹ کرتی رہتی ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9024، مصباح الزجاجة: 32)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/408، 419) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں راوی یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں، لیکن ان کی متابعت سعید بن ایاس الجریری نے کی ہے، ''مسند احمد: 4/419، والسنة لابن أبی عاصم: 234، نیز مسند أحمد: 4/408''نے عاصم الاحول عن أبی کبشہ عن ابی موسیٰ سے بھی روایت کی ہے، اس لئے یہ حدیث صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎: اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو خیر و شر دل میں آتا ہے سب تقدیر الہٰی سے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث88  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دل کی مثال اس پر کی طرح ہے جسے ہوائیں میدان میں الٹ پلٹ کرتی رہتی ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 88]
اردو حاشہ:
(1)
پرندے کا اکھڑا ہوا ایک پر بہت ہلکی چیز ہوتا ہے جسے معمولی ہوا بھی سیدھے سے الٹا اور الٹے سے سیدھا کر سکتی ہے۔
اگر وہ کسی کھلے میدان میں ہو تو ظاہر ہے ہوا اس پر زیادہ اثرانداز ہو گی کیونکہ وہاں ہوا کے اثر کو کم کرنے والی کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔
اور وہ بڑی تیزی سے الٹ پلٹ ہوتا ادھر سے ادھر اور یہاں سے وہاں اڑتا پھرے گا۔
انسان کے دل کی بھی یہی حالت ہے۔
اس پر مختلف جذبات و احساسات تیزی سے اثر انداز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کبھی نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے کبھی گناہ کی طرف، کبھی اس میں محبت کے لطیف جذبات میں موجزن ہوتے ہیں کبھی نفرت کی آندھی چڑھ آتی ہے۔
دل کی اس کیفیت سےفائدہ اٹھا کر شیطان اسے گناہوں میں ملوث کر دیتا ہے، لہذا کسی کو نیکی کی راہ پر گامزن دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ضرور جنت میں جائے گا اور نہ کسی کو گناہوں میں غرق دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لازما جہنمی ہے، اس لیے نیکی کی توفیق ملے تو اللہ سے استقامت کی دعا کرنی چاہیے اور گناہ ہو جائے تو اشکِ ندامت کا نذرانہ لے کر اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ گناہوں کی آندھی اسے رحمت سے بہت دور لے جائے۔

(2)
چونکہ دل کی کیفیات کسی بھی لمحے تبدیل ہو سکتی ہیں، اس لیے انسان اپنے انجام کے بارے میں مطمئن نہیں ہو سکتا۔
ضروری ہے کہ ایمان پر وفات کی دعا کی جائے اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ سے ہدایت و رہنمائی کی درخواست کی جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا کرتے تھے:
(يَا مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰي طَاعَتِكَ) (مسند احمد: 2؍418)
 اے دلوں کو پھیرنے والے! میرا دل اپنی اطاعت و فرمانبرداری پر ثابت رکھ۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 88